• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک فرد کی زندگی ہو یا معاشروں اور قوموں کی، ان میں مشکل مقامات بھی آتے ہیں لیکن جس عہد سے آج ہم گزر رہے ہیں اس کے مظاہر بڑے عجیب و غریب ہیں۔ کہیں موت کا سناٹا ہے اور کہیں دشت کی ویرانی۔ عالمی طاقتیں مکمل طور پر بےبس دکھائی دیتی ہیں اور تاریخی المیے وجود میں آرہے ہیں۔ میں پچھلے دنوں نیو یارک ٹائمز میں راجر کوہن کا مضمون پڑھ رہا تھا جس میں لکھا ہے کہ صدر ٹرمپ کی مطلق العنانیت کی وجہ سے امریکہ جس مشکل میں گرفتار ہے، اسے جرمنی سے زیادہ کوئی اور نہیں سمجھ سکتا۔ وہ اس لئے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ اس کا محافظ اور اس کے لیے جمہوری ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اب جرمن شہری بڑے دکھ سےامریکی تباہی پر گفتگو کر رہے ہیں۔ جرمنی کے میگزین Der Spiegelنے سر ورق پر صدر ٹرمپ کو اپنےاوول آفس میں بیٹھے دکھایا ہے جنہوں نے اپنی انگلیوں میں ماچس کی تیلی پکڑ رکھی ہے۔ وہ اپنی ’ونڈو‘ کےذریعے پورے ملک کو آگ لگانے پر تلے ہوئے ہیں۔ تصویر کی شہ سرخی ہے ’’آگ کا شیطان‘‘۔

میں یہ مضمون اس سے آگے نہیں پڑھ سکا کہ میرا سر چکرانے لگا تھا۔ ’آگ کا شیطان‘ کی اصطلاح نے عالمی منظر نامے کی ہولناکی پوری طرح عیاں کر دی ہےاور مغربی تہذیب کے سارے بندِ قبا کھول ڈالےہیں۔ امریکہ میں کالے امریکی اپنے تحفظ اور اپنی عزت نفس کی جنگ جس پا مردی سے لڑ رہے ہیں، وہ ایک بہت بڑے انقلاب کی خبر دے رہی ہے۔ اس کے علاوہ کورونا وائرس سےامریکہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے جو اس حقیقت کی غمازہے کہ وہاں صحت کا نظام بہت ناقص اور سرمایہ دارانہ ذہنیت پر استوار ہے جس کے خلاف شدید عوامی ردِعمل پیدا ہورہا ہے۔ اسی طرح پورا یورپ لرزہ براندام ہے جس کی معیشت اور جس کا کاروبار زندگی شدت کے ساتھ متاثر اور زوال کا شکار ہیں۔

لداخ کے محاذ پر بھارت کی شکست اور مودی کے رعونت بھرے رویوں کے باعث نیپال اور بنگلہ دیش فدویانہ طرز عمل ترک کر بیٹھے ہیں اور اپنے جائز مطالبات پر زور دینے لگے ہیں۔ سری لنکا تو پہلےہی بھارت سے نفرت کرتاہے اور اپنی سالمیت کے لیے پاکستان کا ممنون احسان ہے۔ بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان کشیدگی چلی آ رہی تھی جس میں اب خاصی کمی آتی جا رہی ہے۔ وزیراعظم حسینہ واجد کو تجربات نے یہ احساس دلایا ہے کہ بھارت ان کا دوست نہیں ہو سکتا جس کی حکمران قیادت ہندوتوا کے سحر میں گرفتار ہے جو مسلمانوں سے سخت نفرت کرتی ہے۔ وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کا بنگلہ دیشی وزیراعظم سے ٹیلی فونک رابطہ ایک نئے عہد کا آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔ ریشمی رومال کی تحریک میں شرکت اور 1906میں ڈھاکہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام نے مسلم بنگال کے اندر مشترکہ مقاصد کے لیے جدوجہد کی جو تڑپ اوردیوانگی پیدا کی تھی، اس کی تخلیق نو کا وقت آپہنچا ہے اور جنوبی ایشیا میں حالات ایک تاریخی موڑ لینے والے ہیں۔ ایران اور چین توحال ہی میںایک تاریخی موڑ لے چکے ہیں۔ انہوں نے ایک اسٹرٹیجک معاہدے پر اتفاق کیا ہے اور مذہبی رہنما آیت اللہ خامنہ ای نے اس کے حق میں بیان دیا ہے، البتہ اس معاہدے کے حوالے سے امریکی صدر ٹرمپ اس وقت سکتے میں ہے۔ جنوبی ایشیا میں آبادی کے لحاظ سے مغرب کاسب سے بڑا مہرہ بھارت علاقائی سیاست میں بری طرح پٹ گیا ہے، کیونکہ ایران نےاسے اپنے اقتصادی اور تزویراتی اہمیت کے منصوبوں سے بے دخل کر دیا اور چین کو اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر بنا لیا ہے۔ ایک بہت بڑی تبدیلی رونما ہو چکی ہے جس میں پاکستان کے لیے نئے امکانات کا ایک جہانِ تازہ آباد ہے۔

اللہ تعالی کے خاص فضل و کرم سے پاکستان میں کورونا وائرس کا زور ٹوٹتا جا رہا ہے اور اموات میں بھی کمی آرہی ہے۔ اگر عوام و خاص عید قربان اور محرم کے دنوں میں کامل ذمے داری سے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہیں، توقوی امید ہے کہ ستمبر کے وسط یا آخر تک زندگی بڑی حد تک معمول پر آ جائے گی۔ اب سب سے کٹھن مرحلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی نفرتوں کا وائرس پھیلتا اور ہرلحظہ تباہ کن ثابت ہو رہا ہے، اس پر کس طرح قابو پایا جائے۔ بفضلِ خدا خارجی محرکات ہمارے حق میں نظر آتےہیں جو ہمیںاس خطے میں عظیم کردار ادا کرنے کی دعوت دے رہے ہیں، مگر ہماراداخلی بگاڑ ہمیں پیچھے کی طرف دھکیل رہا ہے۔ قومی حلقے سخت پریشان اور اس خوف سے لرزاں ہیں کہ کوئی سانحہ پیش نہ آ جائے۔

حکومت اور اپوزیشن جس جنونی کیفیت میں ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں وہ ہمارے مستقبل کے لئے خطرے کا الارم ہے۔ مسائل کا انبار لگا ہے اور بڑے بڑے معاشی اور سیاسی چیلنجز منہ کھولے کھڑے ہیں۔ ان سے نمٹنے کے لئے سروسز کی ڈیلیوری کے علاوہ انصاف اور احتساب کا ایک قابلِ اعتماد نظام قائم کرنا، عوام کی تعلیم، صحت، رہائش، روزگار اور ٹرانسپورٹ کو اولین حیثیت دینا، ترقیاتی منصوبوں کا ایک جال بچھانا اور معیشت کو خود کفالت کی طرف لے جانا اور بنیادی اہمیت کے اداروں میں اصلاحات نافذ کرنا ہوں گی۔ اچھی حکمرانی کے یہی مسلمہ اشاریے ہیں جن کا ہمارے ہاں بڑا فقدان ہے۔ ان دل شکن حالات میں سیاسی قیادتوں کو بالغ نظری، اعلی ظرفی اورسیاسی دانشمندی سے کام لینا چاہیے ورنہ قوم کےلیے پیچ در پیچ مراحل سے گزرنا محال ہو جائے گا۔ یوں تو ہمارے ہاں آئین ہے، پارلیمنٹ ہے، سیاسی جماعتیں ہیں، سول انتظامیہ کا مظبوط ڈھانچہ ہے اور قابل رشک ریاستی ادارے ہیں مگر یہ احساس ناپید ہوتا جا رہا ہے کہ غیرمنتخب اور غیرسیاسی لوگ امور مملکت چلانے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ مہلت کےلمحات محدودہیں اور تاریخ کا تازیانہ ہمارے سروں پر لہرا رہا ہے۔ سیاسی قیادت کو ساز گار ماحول میں شائستہ مکالمے، باہمی احترام اور خوئے دلنوازی کے ساتھ سلامتی کا راستہ تلاش کرنا اور اس پر مستقل مزاجی اور قوت برداشت سے آگے کی طرف بڑھنا ہوگا۔

تازہ ترین