• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صرف خوشیاں منانے ہی نہیں بلکہ خوشیاں بانٹنے کا نام عید ہے۔ ہر معاشرے اور کلچر میں شادمانیوں و مسرتوں کے رنگ سمیٹنے اور بکھیرنے کے اپنے انداز اور خاص ایام ہیں مگر فلسفہ ایک ہی ہوتا ہے کہ دکھوں کی نفی کرکے سکھوں کو ضرب دی جائے کہ کوچہ و بازار اور در و دیوار بھی شہنائیوں اور رعنائیوں کا حصہ بنیں۔ رنگ و بو کا ایک باقاعدہ ایکوسسٹم تراشا جاتا ہے کہ محبتیں، احساس اور اخلاص محدود نہ رہیں بلکہ موسم اور فضا کے ہم جا اور ہم رنگ ہو جائیں۔

انسانی حقوق کی سیلی بریشن کو تقویت بخشنا ہی عید ہے، تجربہ و مشاہدہ یہ کہتا ہے جب آپ وقت، مال و متاع، نفس اور جذبات کو قربان کرکے کوئی منزل یا کامیابی پاتے ہیں تو اس کا سرور ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قربان کرنے کے مصمم ارادے اور بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بخوشی قربان ہونے کے مستحکم ارادے نے لازوال عشقِ حقیقی کو جنم دیا، اللہ کی خوشنودی کے حصول کیلئے ہمیں ایسی رعایت کا سودا بخشا کہ جب ہم نے یہ سودا تجارتی نقطہ نظر سے آگے بڑھایا تو اس میں منافع کی حد کا کوئی حساب ہی نہیں۔ ایک ٹکٹ میں دو مزے، سنت ابراہیمی کی سعی سے ایک طرف یہ جانور کی قربانی سے رب راضی اور دوسری جانب اللہ کے بندے راضی۔ نماز میں، تو جانتا ہے یا تیرا رب اور تو اور تیرا رب ہم کلام ہوتے ہیں مگر عیدین میں تو پورا ایکوسسٹم بھی مستفیض ہوتا ہے تاہم قربانی کے عوض ملنے والی تسلی اور خوشی کا اپنا ہی جمال اور اپنی ہی قد و قامت ہوتی ہے۔ بات کچھ بڑی ہو جاتی ہے اور عید بھی بڑی! شاید دیگر تہوار کے علاوہ اسلامک لائف میں دو عیدیں رب تعالیٰ کی طرف سے بطور تحفہ ملی ہیں اور ان عیدین کی فلاسفی اور رنگ ترنگ میں دینیات کے تناظر میں مخصوص زاویے اور قابلِ غور معاشرتی پہلو ہیں۔ گویا قربانی کے بعد انسانی زندگیوں میں خوشی بانٹنے کا بڑا ہی مزا ہے۔

وہ جو بات کرنا آج لازم ٹھہرا کہ عیدالاضحیٰ پر قربانی کے علاوہ آپ نے وہ سفید پوش عزیز اور دوست خود دریافت کرنے ہیں، جنہوں نے قربانی نہیں کی۔ شہروں میں کئی گھروں کے بچے اور بڑے اپنی دہلیز تکتے رہ جاتے ہیں اور گوشت نہیں آتا۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ انہوں نے تو قربانی کی ہی ہوگی۔ اپنی خوشیوں کو دوبالا گر کرنا ہے اور ان خوشیوں کو ہواؤں اور فضاؤں کا بھی حصہ بنانا ہے تو قربانی سے قبل تھوڑی سی ریسرچ کر لیں جو آپ کے جذبے، مشقت اور قربانی کو چار چاند لگا دے گی۔ ارے یار! دیکھنا تو یہ ہے نا کہ عید کی تربیت کیا اور فوقیت کیا، یادوں کا دریچہ کون سا کھلتا ہے اور وعدوں کا کون سا در وا ہوتا ہے؟

اس عید الاضحی پر میرے جیسا دنیادار یہ بھی دیکھتا ہے کہ جا اللہ نے تمہارے لئے میدان وسیع کردیا ہے کہ تو اپنی چوہدراہٹ کی دھاک بٹھانا چاہتا ہے تو خوشی سے کر استفادہ کہ تیرے اس عمل سے جہاں تو انجوائے کرے گا وہاں تیری کنٹربیوشن بھی تو گوشت کی شکل میں لوگوں کے رزق میں شامل ہوگا۔ ہاں تو اور کیا، ایک طرف سے تیری محبت کی رب کے در پر دستک تو دوسری جانب تیری الفت کی در یار پر دستک! اللہ رب العزت نے عید الاضحی کے فلسفہ میں ہمارے لئے بیک وقت حقوق اللہ اور حقوق العباد انجوائے کرنے کا گولڈن چانس رکھ دیا۔ زندگی اپنی جگہ جہاں امتحان گاہ ہے وہاں محنت کے پھل اور مثبت نتائج کا حصول بھی، اجتماعی فکر اور اجتماعی معاملات و احکامات ہماری تربیت سازی اور معاشرتی توازن کیلئے ہیں۔ ہماری اخلاقی و روایتی اور مذہبی و سیاسی بیٹریاں چارج اور ری چارج ہوتی رہتی ہیں سو مذہبی تہوار ہوں یا ثقافتی معاملات ان کو فکری و عمرانی رنگ میں دیکھنا بھی ضروری ہے۔

سن 2020میں عالمی وبا کے پھوٹنے سے پورے عالم میں تلخی نے اب تک بسیرا کر رکھا ہے، جانے اس وبائی امتحان کے ابھی کتنے دن باقی ہیں، نہیں معلوم در و دیوار پر اداسی کتنا عرصہ اور بال کھولے سوئے گی، پس لوگوں کی آنکھوں سے جتنی اداسی دور کر سکتے ہو اس میں اپنے حصے کا کردار تو ادا کر گزرو، یہی قربانی کا پیغام ہے اور عید کا بھی۔ اگر اس پینڈیمک میں عیدالفطر پر حقوقِ انسانی اور حقوقِ عزیز داری پورا کرنے کی پاداش میں کوئی کمی رہ گئی تھی تو وہ اس عیدالاضحی پر پوری کر لیجئے! وہ کیا ہے کہ:

رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے

اس موقع پر جو ایک اور بات نہایت ہی قابلِ غور ہے کہ کورونا وبا ابھی پنجے گاڑے موجود ہے، کووڈ 19کی ابھی کامیاب و کامران ویکسین مارکیٹ میں نہیں آئی، نہ ادویہ ساز کمپنیاں تاحال کوئی اینٹی کووڈ 19ادویہ بنا پائیں، لہٰذا ضروری ہے کہ ہم حفاظتی تدابیر کا دامن تھامے رکھیں، اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ جان ہے تو جہان اس لئے تھوڑی سی قربانی یہ بھی کہ بےجا آزاد خیالی اور لاپروائی پر کنٹرول نہیں بھولنا۔ خوشیوں کو استحکام بخشنے کیلئے احتیاط ضروری ہے اس دفعہ، ہم جو اللہ توکل اور ہرڈ امیونٹی سے بہت حد تک محفوظ رہے پلیز اس کو چیلنج نہیں جاناں! مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اعتماد کھو بیٹھیں، اعتماد اور اعتقاد دونوں ہی ضروری ہیں، جسمانی و روحانی و اجتماعی خوشیوں کو راحت بخش بنانے کیلئے۔ دیسیوں اور پردیسیوں کو عیدمبارک! ان کی بھی خیر کہ جو یہ کہتے ہیں:

عید اب کے بھی گئی یوں ہی کسی نے نہ کہا

کہ ترے یار کو ہم تجھ سے ملا دیتے ہیں

ہاں، یہ نہ ہو کہ عید کہیں دبے پاؤں گزر جائے، پس مجھے تیری اور تجھے میری خبر جانے کے سنگ سنگ پُر مسرت اور متبرک گوشت آنے جانے والا سلسلہ ہونا بھی ضروری ہے، صاحب!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین