• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کھانے تو زندگی میں بہت کھائے اورکھلائے ہیں۔ دوستوں کے ہمراہ بھی اور مشاہیر زمانہ کے ساتھ بھی لیکن جو مزا ان دنوں نگران حکمرانوں کے ساتھ کھانے کا آرہا ہے وہ کبھی بادشاہوں ، وزرائے اعظم اور صدور ِ مملکت کے ساتھ کھانے میں بھی نہیں آیا۔ دراصل ان کھانوں کی نوعیت قدرے مختلف ہے کیونکہ یہ بالکل الگ قسم کے ”حکمران“ ہیں۔ انہیں میں ”حکمران“ محض اپنا اور ان کا دل خوش کرنے کے لئے کہہ رہاہوں ورنہ یہ دوست تو بزبان حال کہہ رہے ہیں:
میں وہی ہوں مومن# مبتلا
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
ورنہ اگر سلیمہ ہاشمی وزیر بن کر اپنے زیرکمان محکموں کے افسروں سے بریفنگ لیتی اور دیتی نظرآ رہی ہیں تو وزیروغیرہ تو بعد میں ہیں پہلے تو وہ اپنے فیض صاحب کی بیٹی ہی ہیں نا! یا اگر عار ف نظامی وزیر اطلاعات ہیں تو میرے لئے وہ فقط حمید نظامی کے بیٹے، ایک ممتاز صحافی اور میرے دیرینہ ذاتی دوست ہیں۔ نجم سیٹھی اگر پنجاب کے نگران اعلیٰ کی مسند پرفائز ہیں تو ان کا تعارف تو ان کا طویل نظریاتی سفر اور حالیہ ”آپس کی بات“ ہے جسے دیکھنے کے لئے مجھے آدھی رات تک جاگنا پڑتا تھا۔ سو اصل بات یہ ہے کہ روایتی حکمرانوں کے ساتھ کھاناکھاتے گفتگو کے دوران تھوڑا بہت دید لحاظ کرنا پڑتاہے لیکن ان ”نگران حکمرانوں“ کے ساتھ نشست کا مزا یہ ہے کہ ان سے ذاتی تعلق ہے اوران کے ساتھ حکمرانی کا چھلا ہی لگا ہوا ہے۔ ایک ٹکٹ میں دومزے۔ کھل کے گپ شپ کرو، جو جی میں آئے کہو اور جی میں نہ آئے وہ بھی کہہ دو…
عارف نظامی نے تو دو کھانے کئے۔ ایک ”بڑا کھانا“ جس میں شہر کے بیسیوں سینئر اور جونیئر صحافی موجو تھے۔ یہ ”جونیئر“ کا لفظ میں سہواً لکھ گیا ہوں کہ ان دنوں اپرنٹس کے نام کے ساتھ بھی ”سینئر صحافی“ لکھا جاتاہے۔ دوسرا کھانا چند ذاتی دوستوں (الّا ابلیس) کے ساتھ تھا۔ یہاں گپ شپ اسی عارف نظامی کے ساتھ ہو رہی تھی جو دوستوں کا دوست ہے اور صحافت میں یکتا ہے۔ مجھے یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ وہ تمام تر تلخیوں کے باوجود اپنے بچھڑے ہوئے چچا سے ملنے گئے اور چچا نے بھی نہ صرف یہ کہ انہیں گلے لگایا بلکہ عارف کے ساتھ اپنی تصویر اپنے دفترمیں بھی لگادی۔ مجھے بے حد خوشی ہوگی اگر یہ سلسلہ آگے بڑھے اور ایک بکھراہوا خاندان دوبارہ یکجان دو قالب ہو جائے۔ نظریات اپنے اپنے لیکن خونی رشتے کسی نظریاتی یکجائی کے محتاج نہیں ہوتے! عارف صاحب سے انتخابات کے ”مستقبل“ پر بھی بات ہوئی اور وہ ہم سب کو پرامید ہی نہیں بلکہ اس یقین میں مبتلانظرآئے کہ انتخابات ہوں گے اوروقت پرہوں گے۔ عارف نظامی میرے اور آپ کی طرح ذاتی پسند اور ناپسند رکھتے ہیں لیکن جو ذمہ داری انہیں سونپی گئی ہے وہ اس کی نزاکتوں سے پوری طرح واقف ہیں اور اسے پوری دیانتداری سے نبھانے کا عزم رکھتے ہیں!
اسی طرح ایک بڑا کھانا نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی کی طرف سے تھا۔نجم سیٹھی ایسے بلندپایہ صحافی کے ساتھ ”وزیراعلیٰ“ لکھتے ہوئے مجھے گدگدی سی ہونے لگتی ہے کہ ان کے صحافتی مقام و مرتبے کے ساتھ ان کی وزارت ِ اعلیٰ کا ذکر ”شتر گربگی“ کی ذیل میں آتا ہے یعنی یہ ایسے ہی ہے جیسے اونٹ اور بلی کاذکر ایک سانس میں کیا جائے۔ بہرحال نجم صاحب کا دوسرا کھانا محدود تھااور میں نے ان کی باتوں کو اس حوالے سے بھی سنا اورجانچا کہ موجودہ منصب کا دورانیہ ان کے لئے ایک ایسا تجربہ ثابت ہوسکتا ہے جو ان کے آئندہ تجزیوں میں ان کے بہت کام آئے گا۔ بیوروکریسی جس طرح حکمرانوں کو چکر دیتی ہے، انہیں قاعدے اور قانون کی بھول بھلیوں میں ڈالتی ہے اور اچھے کاموں میں رکاوٹ بنتی ہے یہ سب باتیں یقینا نجم سیٹھی کے تجربے میں بھی آئی ہوں گی اور انہوں نے ان چند دنوں میں بھی خود کو پوری طرح بے بس محسوس کیا ہوگا۔ نگران ”حکمرانوں“ کے لئے یہ تجربہ بھی نیا ہوگا کہ ان کے دفتر کے گیٹ میں داخل ہوتے ہی کیا بھونچال سا آجاتا ہے۔ ہر کوئی فعال دکھائی دینے لگتا ہے اور باس محسوس کرتا ہے کہ یہ سب کچھ ان ”فرض شناسوں“ پر چھوڑ کر خود یاد اللہ میں مصروف ہوجانا چاہئے۔ ابھی تو ان ”نگرانوں“ کے بارے میں سب کو علم ہے کہ ان کی حکمرانی چند دن کی ہے چنانچہ وہ ”میدان حشر“ ان کے سامنے برپا نہیں ہوتا ہوگا جو اصلی حکمرانوں کی آمد پر برپا ہوتا ہے اورپھر یہ حکمران سوچنے لگتے ہیں کہ یہ وہ بیل ہیں جن کے دو سینگوں پر دنیاکھڑی ہے، اگر انہیں اپنی جگہ سے ذرا بھی ہلایا جلایا گیاتو سب کچھ زیر و زبر ہو جائے گا۔ بہرحال نجم سیٹھی کے ساتھ ملاقات حسب معمول بہت خوشگوار رہی ۔ ان کی ہلکی پھلکی گفتگو میں وہی گہرائی تھی جو ان کے تجزیوں میں نظر آتی ہے اورخدا کا خصوصی شکر اس بات پر کہ عارف نظامی کی طرح وہ بھی یہ طے کئے بیٹھے ہیں کہ اگر ان کے ”عرصہ ٴ حکمرانی“ کو طول دینے کی کوشش کی گئی تووہ مستعفی ہوجائیں گے۔
تو یہ احوال تھا نگرانوں کے کھانے کا ۔ ایک دوست سندھ میں بھی ”نگران حکومت“ بنی ہے اور اس کا نام نور الہدیٰ شاہ ہے۔ صف ِ اول کی اردو اور سندھی کی افسانہ نگار اور ناول نگار۔ خوبصورت باتیں کرنے والی دانشور ۔ بھیڑ بھاڑ سے الگ تھلگ زندگی گزارنے والی! مجھے علم نہیں کہ انہوں نے اردو اور سندھی کے ادیبوں اور دانشوروں سے کوئی ملاقات کی ہے کہ نہیں اگر نہیں کی تو کرلیں انہیں ایک جگہ جمع کریں اور پکا سا منہ بنا کر انہیں بتائیں کہ ”ان“ کی حکومت کیا کرنے جارہی ہے اوریہ کہ ”ان“ کی حکومت فلاں کام کی اجازت نہیں دے گی۔ اور ”گی“ کے علاوہ ”گے“ کااستعمال بھی کریں کہ ”ہم“ یہ کہیں گے وہ کریں گے وغیرہ وغیرہ مگر پرابلم یہ ہے کہ یہ کام نجم سیٹھی سے ہو رہا ہے اور نہ عارف نظامی سے اور یوں نور الہدیٰ شاہ سے بھی نہیں ہوگا کہ ادب و صحافت سے تعلق رکھنے والوں کا خمیر کسی الگ ہی مٹی سے اٹھا ہوتاہے اور پھر یہ تو ویسے بھی نگران ہیں، چند دن کے مہمان ہیں! اس کے باوجود میں نے ان کی تعریف کی ہے۔
اللہ تعالیٰ میرا یہ گناہ ِ بے لذت معاف فرمائے!
تازہ ترین