23 سال تک جیل میں رہنے اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد 20 جولائی 2019ء کو جب علی محمد بھٹ کو رہائی ملی تو وہ سری نگر میں اپنے گھر جانے کی بجائے سیدھا قبرستان گیا اور اپنے والدین کی قبروں پر آکر ایسے گرا جیسے وہ بہت تھک گیا ہو اور اپنی ہر اُمید گنوا بیٹھا ہو۔ وہ اپنے والدین کی قبروں سے لپٹ کر روتا رہا۔ وہ دھاڑیں مار رہا تھا اور اپنے والد کی قبر کی مٹی سر میں ڈال کر ماتم کر رہا تھا۔ وہ قبروں سے مخاطب ہو کر اپنے اور اپنی دھرتی کے دکھڑے چیخ چیخ کر سنا رہا تھا۔ کبھی کبھی وہ اپنے والد کی قبر پر لیٹ جاتا اور کان لگا کر کچھ سننے کی کوشش کرتا، جیسے اسے قبر کے اندر سے کوئی جواب مل رہا ہو۔ علی محمد بھٹ کی یہ درد ناک ویڈیو سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہوئی تھی، جس نے اہل دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے ٹھیک 15 دن بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے 5 اگست 2019ء کو بھارتی آئین کے آرٹیکل ۔ 370 کا خاتمہ کر دیا، جس کے تحت بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت بھی ختم ہوگئی اور اسے بھارتی یونین کا حصہ بنا کر اس پر غاصبانہ قبضہ کو مزید سخت گیر بنا دیا گیا ۔
علی محمد بھٹ کو 1996ء میں راجستھان کے شہر ساملیتی اور نئی دہلی کے علاقے لجپت نگر میں ہونے والے بم دھماکوں میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ 23 سال بعد اسے بری کر دیا کیونکہ اس پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوا۔ علی محمد بھٹ جب گرفتار ہوا تو اس کی عمر 25 سال تھی اور جب رہا ہوا تو وہ 48 سال کی عمر کو پہنچ چکا تھا۔ وہ نوجوانی میں تحریک آزادی کشمیر کا سرگرم کارکن تھا اور اسی وجہ سے اسے دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ ناکردہ گناہ کی سزا بھی ایک بطل حریت کی طرح بلند حوصلے کے ساتھ کاٹتا رہا کیونکہ اسے یہ امید تھی کہ اس کے وطن کو آزادی ملے گی لیکن جب وہ اپنی پوری جوانی جیل میں گزارنے کے بعد بڑھاپے میں رہا ہوا تو حالات اس طرح اُمید افزا نہیں تھے، جس طرح اس کے جیل جاتے وقت تھے۔ اس کے وطن کو آزادی کیا ملتی، اس خود مختاری اور خصوصی حیثیت سے بھی اس کا وطن محروم ہو گیا، جو اسے بین الاقوامی ضمانتوں سے ملی تھی۔
نریندر مودی کے 5 اگست 2019 ء کے ظالمانہ اقدام کو ایک سال پورا ہونے پر اس سال 5 اگست کو پاکستان بھر میں یوم استحصال کشمیر منایا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے عوام نے مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اظہار کیا۔ حکومت پاکستان نے بھارتی مقبوضہ کشمیر کے نقشہ کو پاکستانی نقشہ میں شامل کرنے کا بھی باقاعدہ اعلان کر دیا اور وزیراعظم عمران خان سمیت ہمارے دیگر قائدین نے یہ باور بھی کرا دیا کہ کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کے مرحلے پر پہنچ گئی ہے لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر اپنی استبدادی گرفت مزید مضبوط کر لی ہے۔ ہاں ہمیں بھی یہی کہتے رہنا چاہئے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کے حوصلے بلند ہیں۔ خود مقبوضہ کشمیر کے عوام کو بھی یہی باور کرانا چاہئے لیکن اس بات پر ضرور غور کرنا چاہئے کہ علی محمد بھٹ کیوں چیخ چیخ کر اور دھاڑیں مار کر رو رہا تھا۔
اب وقت آ گیا ہے کہ حالات کا درست تجزیہ کیا جانا چاہئے۔ ہمیں بالکل اُمید رکھنی چاہئے کہ کشمیر کے عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ اپنی اُمنگوں کے مطابق کریں گے مگر یہ بھی سوچنا چاہئے کہ 5 اگست 2019ء کو جو کچھ ہوا، وہ کیوں ہوا؟ انسانی تاریخ میں کسی بھی قوم کی تحریک آزادی اتنے طویل عرصے تک جاری نہیں رہی۔ کشمیری عوام کی تحریک آزادی 73 سال سے جاری ہے۔ یونیسیف اور دیگر عالمی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق اس تحریک میں تقریباً ایک لاکھ لوگ اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں۔ بہت سی جگہوں پر اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ہیں۔ کوئی گھر ایسا نہیں، جس میں خاندان کا کوئی فرد شہید نہ ہوا ہو اور قتل عام کا یہ سلسلہ روزانہ کی بنیاد پر جاری ہے۔ ہزاروں خواتین بیوہ ہو چکی ہیں اور لاکھوں بچے یتیم ہو چکے ہیں۔ ہزاروں افراد آج بھی لاپتہ ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے لوگ عشروں سے نارمل زندگی اور خوشیوں کو ترس گئے ہیں ۔ پھر بھی تاریخ انسانی کی اس بے مثل تحریک آزادی کا ابھی تک نتیجہ نہیں نکلا کہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی بجائے خصوصی حیثیت اور خود مختاری بھی چھن گئی ۔
میں جانتا ہوں کہ اس حقیقت کی نشاندہی پر بعض حلقے ناگواری کا اظہار کریں گے۔ مگر وہ اس حقیقت کو جھٹلا بھی نہیں سکتے۔ کشمیر کے ایشو کو پاکستان میں انتہائی حساس بنا دیا گیا ہے اور اس ایشو پر بات کرنے کا ایک مخصوص بیانیہ بنا دیا گیا ہے ۔ اس بیانیہ سے ہٹ کر کوئی بات کرے تو اس کی حب الوطنی مشکوک بنا دی جاتی ہے ۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بھی یہی صورت حال ہے ۔ ہم اگرچہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کے حق میں زیادہ بلند آواز سے بات کرتے ہیں لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ آخر کب اور کس کی غلطیوں سے 5 اگست 2019ء برپا کرنے کی بھارت کو جرات ہوئی۔ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازع علاقہ ہے۔ لیکن ہم اگر یہ محسوس کر لیں کہ کشمیر وادی سندھ کا حصہ ہے۔ وادی سندھ کے لوگوں سے اس کا کبھی رشتہ نہیں ٹوٹا ہے۔ کشمیر متنازع علاقہ ہونے کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کا وطن ہے تو ہمیں ان کا درد اور کرب اس طرح محسوس ہو گا کہ پھر شاید ہمیں کھوکھلے نعرے لگانے پر خود سے شرم محسوس ہو گی۔ اس موقع پر کشمیر کی ایک شاعرہ شبنم عشائی کی نظم کا ایک مصرعہ یاد آرہا ہے، جو خود سوال بھی ہے کہ
یہ وقت کہرام میں کون لایا ہے مجھ کو ؟