• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی قائدین ہوں، عالمی امن ہو، بین الاقوامی سیاست ہو، وار اینڈ سیکورٹی کے اسکالرز ہوں یا منجھے ہوئے سفارت کار، فقط دو تین سال قبل تک ان موضوعات پر اپنے ابلاغ (کمیونیکیشن) میں بہت محتاط رہتے اور اسے ہی عالمی سیاست و سفارت میں ذمے دارانہ طرز عمل سمجھتے تھے۔ تیسری جنگ عظیم، ایٹمی جنگ، بائیولوجیکل اور کیمیکل وار فیئر اور کلیش (تصادم) جیسے تشویش آلودہ الفاظ کے استعمال سے ممکن حد تک گریز کیا جاتا، ادائیگی لازم بھی ہو جائے تو بھی پرہیز کا دامن نہ چھوڑتے اور ایسی اصطلاحات اور الفاظ بولنے یا تحریر میں لانے کے بجائے ان کا اشارتاً ہی ذکر کیا جاتا۔ آج یہ الفاظ ذمہ داران ہی کے ابلاغ میں ہائی فریکوینسی پر استعمال ہو رہے ہیں۔ بھارت کے کشمیر کے ایک حصے پر بزور فوجی طاقت شدت سے جاری غاصبانہ قبضے اور فلسطینیوں کا وطن ہڑپ ہونے کے بعد اسرائیلی حکومت کے شدید مذموم عزائم، وقتاً فوقتاً ان کے عملی اظہار کی دیدہ دلیری میں بھی ابلاغ کو ایک حد تک ہی تشویشناک رکھا جاتا۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن مارچ 2000میں جنوبی ایشیا کے چھ روزہ دورے پر بھارت آئے تو انہوں نے اپنی جنوبی ایشیا پالیسی اور پیشگی سفارتی اہتمام کے مطابق، اپنی تمام تر توجہ نئی دہلی پر ہی مرکوز رکھی اور چار بھارتی شہروں میں گئے۔ واپسی پر ان کا فقط چند گھنٹوں کا اسلام آباد میں ٹھہرائو تو، امریکی صدور کے دورہ جنوبی ایشیا میں دونوں ہی (پاکستان اور بھارت) ممالک کو کور کرنے کی روایت کو برقرار رکھنے کا اتمامِ حجت تھا۔ واضح رہے کلنٹن ڈیموکریٹ تھے اور جنرل مشرف پاکستان میں نئے نئے برسراقتدار آئے تھے، جس سے بیزاری کا واضح اظہار ان کی پارٹی اپروچ اور کلنٹن انتظامیہ کی پالیسی کا بنیادی تقاضا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ 11/9کے بعد بھارت ہی کو اپنا ’’فطری حلیف‘‘ قرار دینے والی ری پبلکن بش انتظامیہ کیلئے اپنی پاکستان پالیسی کے حوالے سے دہشت گردی کے خلاف اپنی ہی عالمی جنگ میں فوجی حکومت کے حامل پاکستان کو ’’فرنٹ لائن پارٹنر‘‘ بنانا ناگزیر ہوگیا، یوںاسے اسلام آباد کی جانب یوٹرن لینا پڑا۔ ایسے ہی جیسے دسمبر 1979 میں افغانستان پر کھلی سوویت جارحیت کے بعد پاکستان میں جنرل ضیاء کی مارشل لائی حکومت اور خانہ کعبہ پر یمنی سرکشوں کے حملے کے ردعمل میں اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے پر دھاوے کے بعد امریکہ، پاکستان میں ہوتی تیزی سے دوری کے باوجود کارٹر ڈیموکریٹ کارٹر ایڈمنسٹریشن کو اسلام آباد کی طرف فوری یوٹرن لینا پڑاتھا۔

قارئین کرام! غور فرمائیں ۔ اس پس منظر کے باوجود جب صدر بل کلنٹن مارچ 2000 میں بھارتی دورے پر آئے تو واپسی پر انہوں نے شاید اپنی سِکن سیو رکھنے کےلئے یا امریکہ اور دنیا کو الرٹ کرنے کے لئے ایک بڑی تشویشناک حقیقت کا پردہ اسی زبان میں چاک کردیا، جس کے بغیر یہ واضح ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان مسئلہ کشمیر عالمی امن کے لئے ’’فلیش پوائنٹ‘‘ ہے،گویا پاکستان سے مکمل گریز اور بھارت سے پینگیں بڑھاتے ہوئے بھی سابق صدر نے اپنی دانشورانہ دیانت اتنی ثابت کر دی کہ تنازعہ کشمیر عالمی امن کے لئے جتنا تشویشناک ہے، سفارتی اور سیاسی ’’ذمے داری‘‘ کا تکلف کئے بغیر اسے دنیا پر اسی طرح واضح کردیا جو یہ ہے۔ یہ تو معاملہ تھا ذمے دار ترین عالمی قائد کا جس نے ’’تنازعہ کشمیر اور پاکستان اور بھارت کی ایٹمی صلاحیت‘‘کے تناظر میں عالمی سیاسی و سفارتی ابلاغ میں ’’ ذمے داری‘‘ کی ’’روایتی احتیاط اور ذمے دارانہ ابلاغ‘‘ کو ایک طرف رکھ کر مختصر ترین الفاظ میں تنازعہ کشمیر کی پوری شدت اور تشویش کو واضح کردیا۔ اسی طرح 1998 میں غیروابستہ ممالک کی تحریک (NAM) کی ڈبلن میں ہونے والی کانفرنس کے میزبان نیلسن منڈیلا، تحریک میں دو طرفہ اور علاقائی تنازعات کو زیر بحث نہ لانے کی روایت یا اتفاق کو مسئلہ کشمیر کی سنگینی کو اس وقت جانتے ہوئے کہ پاکستان بھی ایٹمی طاقت بن گیا ہے، وزیراعظم واجپائی کی موجودگی میں یہ واضح کردیا تھا کہ دنیا نے مسئلہ کشمیر بھی حل کرنا ہے۔

عالمی سیاسی ابلاغ میں یہ تکلفات جنہیں سابق صدر کلنٹن اور نیلسن منڈیلا غیر ضروری یا منافقانہ سمجھتے ہوئے اصل تشویش سے دنیا کو آگاہی کو ذمے داری سمجھا تھا کہ اب اسے اختیار کرنے اور فقط ’’سچ‘‘ کو سامنے لانے کا وقت آگیا ہے۔ مسئلہ فلسطین اور کشمیر کو اقوام متحدہ نے متفقہ عالمی فیصلوں کے بعد جس طرح عالمی طاقتوں کے ان کی اپنی تشریح کے مطابق ’’قومی مفادات‘‘ کو اہمیت دی اور جس طرح اب یہ ثابت ہونے میں کچھ بھی تو باقی نہیں رہا کہ اقوام متحدہ کا چارٹر اپنی اہمیت کھوبیٹھا ہے اور عملاً’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کازمانہ لوٹ آیا ۔ جو زبان فاشسٹ بھارتی وزیر اعظم نے کشمیر کو ایک سال کے لئے عسکری طاقت سے محصور کرنے سے پہلے استعمال کی اور جو نیتن یاہو نے ڈیل آف سنچری پر کھلم کھلا، اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے اپنے سرپرست صدر ٹرمپ کی بھرپور حوصلہ افزائی سے کیا۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان صرف تنازعہ کشمیر نہیں بلکہ فلسطین کے حوالے سے اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک کے صدور، بادشاہوں، ملکائوں، وزراءاعظم کو ایک خط لکھ کر ہر دو کیسز کے حوالے سے دنیا سے سوال کریں کہ یو این اے کے چارٹر کو بچانے اور قراردادوں پر عملدرآمد کے لئے کچھ ہونا چاہیے یا ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کوہی تسلیم کرلیا جائے؟ اب ایسے ہی کھلے ابلاغ کا وقت آگیا ہے۔ یہ ہی وقت کا تقاضا ہے کہ تشویشناک اصطلاحات اور الفاظ عالمی سیاسی ابلاغ میں پوری شدت سے استعمال ہو رہے ہیںاور بڑے بڑے ذمہ دار استعمال کر رہے ہیں۔ یا ہم نے ہی سب سے ’’ذمے دار‘‘ بننا ہے؟ یہ کام مسلم دنیا میں ہی نہیں پوری دنیا میں عمران خان ہی کرسکتے ہیں۔

تازہ ترین