• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مائونٹ بیٹن پیپرز پڑھتے ہوئے دلچسپ معلومات ہاتھ لگیں لیکن ان کو اگلے کالم پہ اٹھا رکھتا ہوں کیونکہ گیارہ اگست 1947کی ہماری تاریخ میں اپنی اہمیت ہے یوں تو یہ معمول کا دن تھا اور دستور ساز اسمبلی میں قائداعظم کی تقریر بھی معمول کی تقریر تھی لیکن سیکولر اور دین بیزار حضرات نے چالیس منٹ کے اس خطاب سے تین چار فقرے چن لئے اور انہیں اپنے سیکولر ازم کے ایجنڈے کا نعرہ بنا لیا۔ قائداعظم نے قیام پاکستان سے قبل 101 بار کہا کہ پاکستان کی بنیاد اسلام پر ہوگی، اس کا آئینی ڈھانچہ اسلامی اصولوں پر تشکیل دیا جائے گا اور پاکستان کے حصول کا مقصد ایک اسلامی معاشرہ کا قیام ہے جہاں مسلمان اپنے مذہب، کلچر، روایات اور اخلاقی اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ قیام پاکستان کے بعد 14 بار کہا کہ پاکستان کے آئین کی بنیاد اسلامی اصولوں پر استوار کی جائے گی اور پاکستان ایک ’’پریمیئر‘‘ اسلامی مملکت ہوگی۔ اس کے باوجود سیکولر، دین بیزار اور روشن خیال حضرات کو اصرار ہے کہ قائداعظم سیکولر پاکستان چاہتے تھے۔ بظاہر یہ حضرات اقلیتوں کے حقوق اور غیر مسلمانوں کی برابری کی بات کرتے ہیں جو اسلامی مملکت کے اصولوں کے عین مطابق ہے لیکن دراصل اس کی آڑ میں وہ اسلامی حوالے سے ممنوع عیاشیوں کی آزادی چاہتے ہیں۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہماری بڑی اکثریت تحریک پاکستان کے پس منظر اور قائداعظم کی تقاریر سے مکمل آگاہی نہیں رکھتی۔ چنانچہ یہ ’’چند‘‘ دانشور اس کم علمی کا فائدہ اٹھا کر نوجوان نسلوں کو قیام پاکستان کے حوالے سے بدظن کرتے رہتے ہیں اور قائداعظم پر بہتان لگاتے رہتے ہیں۔ ایک طرف یہ حضرات تاریخ کو مسخ کر رہے ہیں اور دوسری طرف ہماری تاریخ کے ضمن میں بہت سی غلط باتیں بھی مشہور ہیں۔ میں نے تاریخی شواہد کے حوالے دے کر ان کے بے بنیاد دعوئوں کو اپنی کتاب میں بے نقاب کیا ہے جو بہت جلد مارکیٹ میں ہوگی۔ نام ہے ’’سچ تو یہ ہے‘‘ اسے قلم فائونڈیشن نے چھاپا ہے۔ اس میں بہت سی غلط فہمیوں کی وضاحت اور تردید کی گئی ہے جنہیں میڈیا کے حضرات ریٹنگ بڑھانے کی خاطر بلاتحقیق اڑاتے اور پھیلاتے رہے ہیں۔ 

ہماری کم علمی کا یہ عالم ہے کہ پرسوں مجھے ایک تحقیقی ضخیم کتاب ’’میر کارواں‘‘ کے مصنف میاں محمد افضل کا پیغام ملا۔ وہ حیران تھے کہ وزیراعظم عمران خان نے پانچ اگست کو آزاد کشمیر اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کیسے کہہ دیا کہ قائداعظم چودہ اگست سے تین ہفتے قبل کراچی آئے تھے۔ یہ ہماری بے خبری کا شاہکار ہے کیونکہ جون، جولائی اور سات اگست 1947تک قائداعظم نیو دہلی میں ہر لمحہ اس قدر مصروف تھے کہ باہر جانا ممکن ہی نہیں تھا۔ اگر خواص کا یہ عالم ہے تو عوام کا کیا حال ہوگا۔ 10اگست کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا افتتاح ہوا تھا۔ گیارہ اگست کو دوسرا اجلاس تھا جس میں قائداعظم نے چالیس منٹ تک خطاب کیا۔ انہوں نے دستور ساز اسمبلی کے فریضے اور کردار پر روشنی ڈالی، امن و امان کی اہمیت پر زور دیا، رشوت ستانی اور بدعنوانی کو زہر قرار دیا، چور بازاری، اقربا پروری، سفارش وغیرہ ختم کرنے کا اعلان کیا، غربت کے خاتمے اور انسانی برابری پر زور دیا اور قومی اتحاد کی اہمیت واضح کی۔ ہمارے سیکولر حضرات کو قائداعظم کی تقریر کے اس حصے سے کوئی غرض نہیں۔ وہ جن چند فقروں کو اچھالتے اور اپنا منشور قرار دیتے ہیں وہ یہ ہیں۔

قائداعظم نے فرمایا کہ مملکت پاکستان میں آپ آزاد ہیں:اپنے مندروں میں جائیں، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں۔ آپ کا کسی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو، کاروبار مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ہم اس بنیادی اصول کے ساتھ ابتداکر رہے ہیں کہ ہم سب شہری ہیں اور ایک مملکت کے یکساں شہری ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب ہمیں اس بات کو ایک نصب العین کے طور پر اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا نہ ہندو، ہندو رہے گا نہ مسلمان، مسلمان، مذہبی اعتبار سے نہیں، کیونکہ یہ ذاتی عقائد کا معاملہ ہے، بلکہ سیاسی اعتبار سے اور مملکت کے شہری کی حیثیت سے۔

قائداعظم نے اپنی تقریر کے اختتام پر فرمایا:عدل اور مکمل غیرجانبداری میرے رہنما اصول ہوں گے اور میں یقیناً آپ کی حمایت اور تعاون سے دنیا کی عظیم قوموں کی صف میں پاکستان کو دیکھنے کی امید کر سکتا ہوں۔قائداعظم کی تقریر کے بعد لیاقت علی خان نے پاکستان کے قومی پرچم کا نمونہ اسمبلی کے سامنے پیش کیا۔ 12اگست کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ 15اگست کے بعد محمد علی جناح کا نام سرکاری کاغذات پر قائداعظم محمد علی جناح تحریر کیا جائے گا۔قائداعظم کے ان الفاظ کا سیدھا سا مفہوم یہ ہے کہ پاکستان کے سب شہری برابر ہیں، انہیں مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے، حکومت ان کے عقیدے کی راہ میں حائل نہیں ہوگی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مذہبی عقائد کے باوجود سب پاکستان کے شہری بن جائیں گے۔دراصل جو حضرات ان الفاظ میں سیکولر ازم تلاش کرتے ہیں انہوں نے تاریخ اسلام اور اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرنے کی زحمت نہیں کی۔ ریاست مدینہ میں میثاق مدینہ کے مطابق تمام اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل تھی، ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی جاتی تھی اور بہ حیثیت شہری انہیں برابر کے حقوق حاصل تھے۔ غیر مسلمانوں کی مذہبی آزادی کا اس سے بڑا عملی مظاہرہ اور کیا ہوگا کہ ایک دفعہ نجران کے عیسائیوں کا وفد مدینہ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفد کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا اور مسجد نبوی میں ہی ان کو اپنے عقائد کے مطابق عبادت کی اجازت دی۔ مکہ میں قحط پڑا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشرکین کے لئے نقدی کے علاوہ سامان خورو نوش بھی بھجوایا۔ بیت المقدس کی فتح کے بعد خلیفہ حضرت عمرؓ وہاں تشریف لے گئے تو بوڑھے پادری کی پیشکش کے باوجود بیت المقدس میں نماز ادا نہ کی تاکہ اسلامی مملکت میں عیسائیوں کی عبادت گاہوں کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔ دراصل ان روشن خیال سیکولر دانشوروں کو گیارہ اگست کی تقریر کی بجائے ریاست مدینہ کی تاریخ اور اسلامی نظام کا مطالعہ کرنا چاہئے مگر مشکل یہ ہے کہ میرے مشاہدے کے مطابق ان حضرات کو مطالعے سے کوئی شغف اور رغبت نہیں، ان کا مقصد حصول شہرت ہے اور مذہب سے بیزاری پھیلانا ہے۔ اس مقصد کیلئے انہیں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کراچی کے فورم کے علاوہ اور بڑے بڑے فورم ملتے ہیں۔ اندھے کو کیا چاہئے، دو آنکھیں۔

تازہ ترین