محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
رپورٹ:طاہر حبیب
تعمیراتی شعبے کو 70 صنعتوں کو بالواسطہ یا بلا واسطہ مدد فراہم کرنے کے باعث دنیا بھر میں مدر انڈسٹری سمجھا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان تعمیراتی شعبےمیں گہری دلچسپی رکھتے ہیں اورانہوںنے معاشرے کے کمزور اور غریب طبقے کو گھر فراہم کرنے کے لیے 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کا نعرہ لگایا ہے۔اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ اگر 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کا منصوبہ شروع ہوجائے تواس سے نہ صرف مایوسیوں کا شکار تعمیر اتی شعبہ بحال ہوگا بلکہ ملکی معیشت کے فروغ کے ساتھ ساتھ عام آدمی کا معیار زندگی بلند کرنے کا سبب بھی بنے گا۔فکس ٹیکس ریجیم کے مطابق بلڈرز اور ڈیولپرز کو اسکوائر فٹ اور اسکوائر گز پر فکس ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ فکس ٹیکس کے نفاذ کے بعد قومی ریونیو میں کئی گنا اضافہ ہوگا محسن شیخانی
جب انسان کو اچھی اور مناسب رہائش حاصل ہوتی ہے تو اس کی ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ معاشرے کی تعمیر اور ترقّی میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کا مطلب میری نظر میں ایک کروڑ ملازمتوں کا پیدا ہونا ہے۔پہلے جب کوئی شخص مکان تعمیر کرتا تھا تو زمین کی قیمت کل لاگت کا پچیس فی صد ہوتی تھی اور بقیہ 75 فی صد تعمیرات کا خرچ ہوتا تھا۔ اب معاملہ بالکل اُلٹ گیا ہے۔ حکومت کو زمین کے معاملات پر توجہ دینی چاہئیے۔ ایک ایسی پالیسی بنائی جائے کہ ہر شہری کو اپنی ضرورت کے مطابق ایک رہائشی پلاٹ مل سکے
محمد اعجاز
نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم کے لیے قرض کے خواہاں کسی بھی شخص کی ماہانہ تنخواہ 30 ہزار سے 40 ہزار روپے تک ہونا ضروری ہے۔
الاٹیز یا قرض کے درخواست گزار کو مکان یا اپارٹمنٹ کی قیمت کا 10 فیصد زربیعانہ ادا کرنا ہوگا جب کہ بینک بقایا 90 فیصد ادا کریں گے۔ یہ قرضہ بینک بلڈرز اور ڈیولپرز کو دیں گے۔اگر حکومت،بلڈرز اور ڈیولپرز نے اسکیم کے لیے متعین قواعد پر عمل درآمد کیا تو نہ صرف اسکیم کامیاب ہوگی بلکہ تعمیرات اور بینکنگ صنعتوں کو بھی لانگ رن میں پائیدار ترقی ملے گی۔تعمیراتی صنعت کی ترقی سے دیگر 70 ذیلی صنعتوں کو بھی فروغ ملے گا اور بینک ان صنعتوں کی ترقی کے لیے انھیں قرضے فراہم کرنے کے مواقعوں سے بینکنگ انڈسٹری کو فروغ دے سکیں گے
مدثر ایچ خان
کسی بھی ملک کی سماجی و معاشی ترقی میں اضافے کے لیے شعبہ تعمیرات بنیادی حیثیت رکھتا ہے حکومت پاکستان نے تعمیراتی شعبے کی ترقی کے لیے تاریخی قدم اٹھاتے ہوئے اسے صنعت کا درجہ دے کر بہت سی مراعات دینے کا اعلان کیا ہے، جس کے تحت کنٹریشن انڈسٹری ڈیولپمنٹ بورڈ قائم ہوگا، تعمیرات کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والوں سے پہلے سال میں ذریعہ آمدنی کی پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔ نیا پاکستان ہائوسنگ میں سرمایہ کاری پر 90 فی صد ٹیکس چھوٹ ہوگی۔ سیمنٹ اور اسٹیل کے سوا تمام منسلک شعبوں پر ود ہولڈنگ ٹیکس ختم ہوگا اور دیگر میں چھوٹ دی جائے گی، بلڈرز اور ڈیولپر پر فکس ٹیکس عائد ہوگا۔ تعمیراتی مشینری، دیگر صنعتی مشینری کی طرح درآمد کی جاسکے گی۔
ایڈوائس ٹیکس صرف 5 فی صد ہوگا۔ علاوہ ازیں حکومت نے پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کا بھی اعلان کیا ہے جس نے تعمیراتی صنعت کی سرگرمیوں میں نئی جان ڈال دی ہے، اس پیکج کے تحت پہلے ایک لاکھ گھروں کی تعمیر کے لیے تین لاکھ روپے فی گھر زر تلافی دی جائے گی پانچ مرلہ کے مکان پر پانچ فی صد مارک اپ لیا جائے گااور دس مرلہ کے مکان پر سات فی صد مارک اپ ہوگا۔ بینکوں کی جانب سے تعمیرات شعبے کے لیے 330 ارب روپے مختص کیے جائیں گے۔ غیر منقولہ جائیداد کی نیلامی پر ٹیکس دس فی صد سے کم کرکے پانچ فی صد کیا جائے گا۔ پانچ سو مربع گز کے ذاتی رہائشی مکان یا فلیٹ (4000 مربع فٹ تک) کی فروخت پر کیپٹل گین ٹیکس میں ایک مرتبہ استثنیٰ حاصل ہوگا۔
یہ تعمیراتی پیکیج معاشی ترقی کے لیے کس حد تک سود مند ہے اس سے غریب عوام کو اپنا گھر بنانے میں مدد ملے گی یا یہ صرف بلڈرز اور ڈیولپر کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہے نجی بینکوں سے 330 ارب روپے کے قرض کی سہولت سے عوام کس طرح فائدہ اٹھا سکیں؟ جس شرح سود کا اعلان کیا گیا ہے۔ وہ کس مدت تک برقرار رہے گی یا آئندہ اس میں اضافہ کردیا جائے گا۔ ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ تعمیراتی شعبے کہ دی جانے والی ان سہولتوں کا غلط استعمال تو نہیں ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ ان سب سوالات کا جائزہ لینے کے لیے جنگ فورم کا انعقاد کیا گیا جس کی رپورٹ قائرین کی نذر کی جارہی ہے۔
محسن شیخانی
چیئرمین ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز(آباد)
ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ دیولپرز (آباد) پاکستان کی معیشت میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ آباد 1000 ارکان پر مشتمل بلڈرز اور ڈیولپرز کی واحد نمائندہ جماعت ہے جن کا تعلق کراچی،حیدرآباد اسلام آباد،لاہور،کوئٹہ ،پشاور،سکھر اور پاکستان کے دیگر بڑے شہروں سے ہے۔آباد ہمیشہ ملک میں قانونی تعمیرات کی وکالت کرتا آرہا ہے۔آباد کے ممبران بلڈرز اور ڈیولپرز تمام قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے لائسنس حاصل کرتے ہیں،ہر قسم کے ٹیکسوں کی ادائیگیاں کرتے ہیں،کمرشلائزیشن،ڈیولپمنٹ اور آئوٹر ڈیولپمنٹ چارجز ادا کرتے ہیں۔بجلی،گیس اور پانی کے کنکشنز کے لیے بھاری قیمتیں ادا کرتے ہیں۔بلڈنگ بائی لاز کے مطابق پلان منظور کراتے ہیں،منصوبے کی تعمیر کے لیے بھاری فیسوں پر کوالیفائیڈ آرکیٹیکٹس،سول انجینئرز،سرویئر کی خدمات حاصل کرتے ہیں اور عوامی میڈیا کے ذریعے منصوبے کی تشہیر کرتے ہیں۔آباد کے ممبران تعمیرات شروع کرنے سے قبل پبلک نوٹسز اور متعلقہ اداروں بشمول ایس بی سی اے ،کیپٹل ڈیولپمنت اتھارٹی اور دیگر سے باقاعدہ زمین کی ملکیت کی تصدیق کراتے ہیں۔
ہمیں مختلف اداروں سے 18 این او سیز حاصل کرنی ہوتی ہیں جس کے لیے ایک یا ڈیڑھ سال تک ہمیں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ملک کے سب سے بڑے 100 ٹیکس گزاروں میں 7 ٹیکس گزار آباد کے ممبران ہیں جو اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ آباد تمام قابل اطلاق ٹیکسز باقاعدگی سے ادا کرتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ آبادبار بار ایک کے بعد ایک حکومت کو ملکی معیشت میں کرپشن کے خاتمے کے لیے ٹیکسوں،زمینوں کے ریکارڈاور تمام اداروں کو ڈیجیٹیلائز کرنے کی تجاویز بھی دیتا رہا ہے تاکہ انسانی رابطے ختم کرکے کرپشن کا خاتمہ کیا جاسکے۔
تعمیراتی شعبے کو 70 صنعتوں کو بالواسطہ یا بلا واسطہ مدد فراہم کرنے کے باعث دنیا بھر میں مدر انڈسٹری سمجھا جاتا ہے۔مگر اس حقیقت کے باوجود عام آدمی کی زندگی بہتر بنانے اور قومی معیشت کے فروغ کے لیے کوئی بھی تعمیراتی شعبے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا ہے۔تاہم یہ امر باعث اطمینان ہے کہ موجودہ وزیراعظم عمران خان تعمیراتی شعبے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں اورانہوں نے معاشرے کے کمزور اور غریب طبقے کو گھر فراہم کرنے کے لیے 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کا نعرہ لگایا ہے۔اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ اگر 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کا منصوبہ شروع ہوجائے تواس سے نہ صرف مایوسیوں کا شکار تعمیر اتی شعبہ بحال ہوگا بلکہ ملکی معیشت کے فروغ کے ساتھ ساتھ عام آدمی کا معیار زندگی بلند کرنے کا سبب بھی بنے گا۔
اسی ویژن کے تحت آباد نے تعمیراتی شعبے کو ترقی دینے کے لیے 23 جولائی 2020 کو ملٹری لینڈز اینڈ کنٹونمنٹس بورڈز کراچی ریجن کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے ہیں ۔اس حوالے سے کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن کے دفتر میں منعقدہ تقریب میں ڈائریکٹر جنرل ایم ایل اینڈ سی میجر جنرل سید حسنات عامر گیلانی کی موجودگی میں کراچی ریجن کے تمام ملٹری لینڈز اینڈ کنٹونمنٹس بورڈز کے لیے یکساں بائی لاز اور ون ونڈو آریشن کا نظام متعارف کرایا گیا۔
نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وزیراعظم عمران خان نے 3 اپریل 2020کو تعمیراتی شعبے کو مراعات دینے کے لیے ایک تاریخی پیکج کا اعلان کیا ۔ جس میں کہا گیا تھا کہ 31دسمبر 2020 تک کنسٹرکشن انڈسٹری میں سرمایہ کاری کرنے والوں سے ذریعہ آمدنی نہیں پوچھا جائے گا۔آباد سمجھتا ہے کہ اس سہولت کے بعد تعمیراتی شعبے میں مقامی و غیرمقامی سرمایہ کاروں کی جانب سے بہت بڑی سرمایہ کاری متوقع ہے جس سے 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کا ہدف اور قریب آ جائے گا اور روزگار کے لاکھوں مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ تاہم آباد کا مطالبہ ہے کہ سرمایہ کاری کرنے کی مدت 31 دسمبر 2020 کے بجائے 31 دسمبر 2021 کی جائے۔
وزیراعظم عمران خان نے 3 اپریل کو تعمیراتی شعبے کے لیے فکس ٹیکس ریجیم کا اعلان کیا تھا جس کو بجٹ میں بھی منظور کیا گیا ہے ۔ فکس ٹیکس ریجیم کے مطابق بلڈرز اور ڈیولپرز کو اسکوائر فٹ اور اسکوائر گز پر فکس ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔فکس ٹیکس ریجیم آباد کا درینہ مطالبہ رہا ہے اس اقدام سے ٹیکس وصولی کے اداروں میں کرپشن کا خاتمہ ہوگا ، بلڈرز اور ڈیولپرز کو بلیک میل کرنے کا عمل ختم ہوجائے گا اور بلڈرز ذہنی سکون کے ساتھ اپنا کاروبار جاری رکھ سکیں گے ۔ آباد حکومت پاکستان کو یقین دلاتا ہے کہ فکس ٹیکس کے نفاذ کے بعد قومی ریونیو میں کئی گنا اضافہ ہوگا۔ نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو ٹیکس میں 90 فیصد چھوٹ حاصل ہوگی۔آباد حکومت کے اس اقدام کو سراہتا ہے کیوںکہ یہ اقدام 50 لاکھ گھروں کی تعمیرات کے ہدف کو قریب کرنے کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقع پیدا کرے گا اور کم آمدنی والے طبقے کو گھروں کا حصول بھی ممکن بنائے گا۔سیمنٹ اور اسٹیل کے علاوہ کنسٹرکشن انڈسٹری کی تمام سروسز پر ود ہولڈنگ ٹیکس کا خاتمہ احسن اقدام ہے جو تعمیراتی شعبے سے منسلک سرمایہ کاروں کے لیے باعث اطمینان ہے۔
اس پیکج کا سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ کنسٹرکشن انڈسٹری کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے تعمیراتی شعبے کو انڈسٹری کا درجہ دے دیا ہے جس پر آباد وزیراعظم عمران خان اور ان کی معاشی ٹیم کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔آباد کی حکومت سے اپیل ہے کہ تعمیراتی شعبے کو انڈسٹری کا درجہ دیے جانے کے بعد دیگرصنعتوں کی طرح تعمیراتی صنعت کو بھی فنانسنگ ،امپورٹس اور ایکسپورٹ میں فوائد حاصل ہونے چاہیئں۔ کورونا کی وبا سے قومی معیشت پر سخت منفی اثرات پڑے ہیں، ایسے میں معاشی سرگرمیوں کا ماند پڑنا قدرتی امر ہے، لوگوں کو اپنی صحت کی فکر لاحق ہے،کوئی بھی اپنا مکان خریدنے کا سوچ بھی نہیں سکتا،بلڈرز اور ڈیولپرز کا تعمیراتی منصوبے مکمل کرنے میں مشکلات کا سامناہے۔
تاہم یہ خوش آئند ہے کہ حکومت نے اس کا ادراک کرتے ہوئے 10 جولائی 2020 کو تعمیراتی شعبے کے استحکام کے لیے نجی بینکوں کو سستے گھروں کی تعمیر کے لیے 330 ارب روپے کے قرضے فراہم کرنے کے احکام جاری کیے ہیں۔،آباد سمجھتا ہے کہ 330 ارب روپے ناکافی ہیں اور اس کی تجویز ہے کہ اسٹیٹ بینک کم از کم 2000 ارب روپے کے قرضے فراہم کرنے کے لیے تمام نجی بینکوں کو پابند کرے۔اسی کے ساتھ ہمارا مطالبہ یہ بھی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات میں متفقہ فیصلے کے مطابق سیکشن 236 k(3) کا خاتمہ کیا جائے۔ فائنل ٹیکس ریجیم اختیار نہ کرنے والے بلڈرز اور ڈیولپرز کو ود ہولڈنگ ٹیکس سے استثنیٰ دیا جانا چاہیے۔
وفاقی بجٹ میں کیپٹل گین ٹیکس کے ریٹس اور دورانیہ کم کرنے سے ملکی وغیر ملکی سرمایہ کار تعمیراتی شعبے کا رخ کریں گے جس سے معیشت کو فروغ ملے گا۔محسن شیخانی کا مزید کہنا ہے کہ 10 جولائی 2020 کو وزیراعظم عمران خان نے ہائوسنگ وتعمیرات سیکٹر کی ترقی کے لیے مراعات وسہولتوں کا اعلان کرتے ہوئے نیا پاکستان ہائوسنگ پروجیکٹ کے لیے 30 ارب روپے کی سبسڈی مختص کردی ہے۔آباد کئی برسوں سے کم لاگت گھروں کی تعمیر اور کچی آبادیوں کو ماڈل شہر بنانے کی تجویز دیتا آرہا ہے اور اس کے لیے عملی اقدامات بھی اٹھائے۔الیکشن 2018 سے قبل وزیراعظم عمران خان نے آباد ہائوس کا دورہ کیا تھا تو آباد نے کم لاگت گھروں کی تعمیر کے لیے انھیں قائل کیا تھا جس کے بعد نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم اور اب اس اسکیم کے لیے 30 ارب روپے کی سبسڈی سے کم آمدنی والے طبقے کے لیے اپنا گھر کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے گا۔
آباد نے تعمیراتی شعبے کو ترقی دینے کے لیے 23 جولائی 2020 کو ملٹری لینڈز اینڈ کنٹونمنٹس بورڈز کراچی ریجن کے ساتھ معاہدہ کیا ہے۔کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن کے دفتر میں منعقدہ تقریب میں ڈائریکٹر جنرل ملٹری لینڈز اینڈ کنٹونمنٹس میجر جنرل سید حسنات عامر گیلانی کی موجودگی میں آباد کے چیئرمین محسن شیخانی اور ڈائریکٹر ملٹری لینڈ اینڈ کنٹونمنٹس کراچی ریجن عادل رفیع صدیقی نے مفاہمت کی یاداشت پر دستخط کیے۔تقریب میں ڈی جی سید حسنات عامر گیلانی نے پختہ یقین دہانی کرائی کے 14 اگست 2020 یوم پاکستان پر معاہدے پر عمل درآمد شروع کیا جائے گا۔ تقریب میں معاہدے کے مطابق کراچی ریجن کے تمام ملٹری لینڈز اینڈ کنٹومنٹس بورڈز کے لیے یکساں بائی لاز اور ون ونڈو آپریشن کا نظام بھی متعارف کرادیا گیا ہے۔معاہدے کے مطابق بلڈرز اور ڈیولپرز کی تعمیراتی پروجیکٹ کی منظوری کے لیے تمام متعلقہ اداروں کو ایک چھت کے نیچے لاکر ون ونڈو آپریشن کے نظام کے تحت درخواست کو 30 یوم میں منظور کیا جائے۔6 منزلہ اور اس سے زائد عمارتوں کی تعمیر کی منظوری ریجنل ہیڈ کوارٹر میں جائے بغیر ہی متعلقہ کنٹونمنٹ بورڈ کو دینے کا اختیار حاصل ہوگا۔
آباد نے قبل از بجٹ میں اسٹیل بار اور سیمنٹ پر ریگولیٹری ڈیوٹی اور اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی کے خاتمے کی تجویز پیش کی تھی جس پر وفاقی بجٹ میں عمل نہیں کیا گیا۔آباد سمجھتا ہے کہ اس اقدام سے اسٹیل اور سیمنٹ کے شعبوں میں کارٹیلائزیشن اور اجارہ داری کا خاتمہ ہوجائے گا۔
اسٹیل کی درآمد کو روکنے کے لیے ریگولیٹری ڈیوٹی اس وقت نافذ کی گئی تھی جب تقریبا 5 برس قبل عالمی منڈی میں اسٹیل کی قیمتیں فی میٹرک ٹن 500 امریکی ڈالر سے گھٹ کر 220 امریکی ڈالر ہوگئی تھیں۔ریگولیٹری ڈیوٹی کو اسٹیل کی قیمتوں میں واپس اضافے کے بعد ختم کیا جانا تھا۔تاہم اسٹیل کی قیمتیں واپس اپنی جگہ پر آنے کے باوجود ریگولیٹری ڈیوٹی کا خاتمہ نہیں کیا جاسکا ہے۔
علاوہ ازیں صرف چند مینوفیکچررز کو فائدہ پہنچانے کے لیے اسٹیل بار کی درآمد پر اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی نافذ کی گئی تھی ۔
پاکستان میں 5 برسوں میں 50 لاکھ گھروں کی تعمیر،ایک کروڑ لوگوں کو روزگار فراہم کرنا اور کارٹیلائزیشن کا خاتمہ وزیراعظم عمران خان کا ویژن ہے تاہم ریگولیٹری ڈیوٹی اور اینٹی دمپنگ ڈیوٹی کا نفاذ وزیر اعظم عمران خان کے ویژن سے متصادم ہے۔نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم کی کامیابی اور سستے مکانات کی فراہمی کے لیے ضروری ہے کہ اسٹیل اور سیمنٹ کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی اور اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی کا خاتمہ کیا جائے تاکہ تعمیراتی شعبے کی ان 2 اہم جز کی آزادانہ درآمد ہوسکے ۔اس سے ہائوسنگ یونٹ کی لاگت میں کمی ہوگی اور کم آمدنی والا طبقہ اس سے مستفید ہوگا۔محسن شیخانی کے مطابق ہائوسنگ غیر ملکی زرمبادلہ کمانے کا اہم ذریعہ بن سکتا ہے۔
بلڈرز اور ڈیوپرز اپنے تعمیر شدہ یونٹس اور ڈیولپڈ پلاٹ عالمی منڈی میں اوورسیز پاکستانیوں کو روڈ شوز کے ذریعے فروخت کریں گے۔ فروخت کا عمل بینکنگ چینلز کے ذریعے ہوگا،عالمی منڈی میں تعمیر شدہ یونٹس اور پلاٹ کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم میں سے 50 فیصد رقم سے ڈیوٹی فری تعمیراتی مٹیریل کی درآمد میں استعمال کی اجازت دی جائے اس سے مقامی تعمیرات کو بین الاقوامی معیار پر لایا جاسکے گا اور کارٹیلائزیشن کا بھی خاتمہ ہوگا۔اس سارے عمل سے سب سے زیادہ فائدہ حکومت پاکستان اور خریداروں کو ہوگا۔تاہم ہمارا مطالبہ ہے کہ حال ہی میں فنانس ایکٹ کے تحت نافذ آرڈیننس میں مجوزہ ترامیم کرکے
(الف)پروجیکٹ شروع کرنے کا ٹائم فریم بڑھا کر 31 دسمبر 2021 کیا جائے۔
(ب)پروجیکٹ کی تکمیل کی مدت 30 ستمبر2025 کی جائے
(ج)بلڈرز ،ڈیولپرز اور خریداروں کے لیے سیکشن 111 سے استثنیٰ کا دورانیہ اسی کے مطابق کیا جائے۔
(د) پروجیکٹ ڈیولپمنٹ کے لیے 40 فیصد ادائیگی کی شرط کا خاتمہ کیا جائے اس سے ڈیولپرز کو اپنے پروجیکٹ کو جلد مکمل کرنے کے لیے اپنے ہی ریسورسز سے سرمایہ کاری میں مدد ملے گی۔
(ہ)آمدنی زیادہ ہونے کی صورت میں فی اسکوائر فٹ۔اسکوائر گز پر ٹیکس شرح رضاکارانہ طور پر بڑھانے کا نظام متعارف کرایا جائے۔اس شق سے پورٹل میں رجسٹریشن کے وقت مستفید ہونا چاہیے۔کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ کی ایک شق متعارف کی جانی چاہیے جس سے دولت کی تخلیق اور لوگوں کو اپنا منافع ایمانداری سے ظاہر کرنے میں مدد ملے گی اور اس سے ریونیو میں بھی کئی گنا اضافہ ہوگا۔
پنجاب ،اسلام آباد اور کے پی کے میں پلاٹ عمارتوں کی تعمیر یا ہائوسنگ اسکیم کے لیے قسطوں پر فروخت کیا جاتا ہے۔خریدار بیعانہ دے کر بقایا ادائیگی چیک کے ذریعے عمارت یا ہائوسنگ اسکیم کی تعمیرات کے ساتھ ساتھ ادا کرتا ہے۔ختمی ادائیگی کے بعد فروخت کنندہ پلاٹ خریدار کے نام پر ٹرانسفر کرتا ہے۔ یہ طریقہ کار عمو ما بڑے پلاٹ یا زمین کے بڑے رقبے کی فروخت میں کیا جاتا ہے۔حالیہ آرڈیننس میں اس طرح کے بلڈرز اور ڈیولپرز کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔لہذا تجویز دی جاتی ہے کہ فکس ٹیکس اور ٹیکس کریڈٹ سے فائدہ اٹھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ بلڈرز اور ڈیولپرز کو شامل کرنے کے لیے فنانس ایکٹ میں مناسب شق شامل کی جائے۔30 جون 2021 کے بعد انسٹالمنٹس کی ادائیگی پر بلڈرز اور ڈیولپرز کو سیکشن 111 سے استثنیٰ نہیں دیا جانا چاہیے۔اسی کے ساتھ ساتھ مناسب ہوگا کہ تعمیراتی مشینریز کی درآمد پر امپورٹ ڈیوٹی کا خاتمہ کیا جائے
a ، تعمیرات میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے لاگت اور وقت کی بچت کے مقصد کے حصول کیلیے تعمیراتی مشینریز کی درآمد پر امپورٹ ڈیوٹی کا خاتمہ کیا جائے اس سے ملک میں عالمی معیار کی رہائش اور انفرااسٹرکچر کاحصول ممکن ہوسکے گا۔
تعمیراتی مٹیریل میں سیلز ٹیکس اور ایکسائز ڈیوٹی کی شرح کم کرکے 5 فیصد کی جائے
سیلز ٹیکس ڈپارٹمنٹ میں رجسٹرڈ نہ ہونے والے بلڈرز اور ڈیولپرز سے تعمیراتی مٹیریل کے مینوفیکچررز کی جانب سے اضافی 3 فیصد سیلز ٹیکس وصولیوں کا خاتمہ کیا جائے۔چونکہ قانون کے مطابق بلڈرز اور ڈیولپرز کے لیے سیلز ٹیکس ڈپارٹمنٹ میں رجسٹریشن کرانا ضروری نہیں ہے اس لیے بلڈرز اور ڈیولپرز کی ایف بی آر میں فعال حیثیت ہی کافی ہے اس لیے اضافی 3 فیصد سیلز ٹیکس چارج نہیں کیا جانا چاہیے۔
پاکستان کے سرکاری اداروں کی کارکردگی میں بہتری لانے کے لیے اداروں کی آئوٹ سورسنگ کی جائے۔
حال ہی میں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پاکستان کے تمام بڑے ایئرپورٹس کو نجی شعبوں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہو۔آباد اس فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہے۔آباد کی تجویز ہے کہ پاکستان کے دیگر اداروں کی کارکردگی میں بہتری لانے کے لیے ان اداروں کو بھی نجی شعبے کے حوالے کیا جائے اس سے نا صرف حکومت کے ریونیو میں اضافہ ہوگا بلکہ بہتر کارکردگی سے عام شہریوں کے مسائل بھی حل ہوسکیں گے۔
محمد اعجاز
چیف ایگزیکٹیو، عارف حبیب ڈالمین ریٹ مینجمنٹ لمیٹڈ
میں سمجھتا ہوں کہ حکومت نے تعمیراتی شعبے کے لیے جن انقلابی اقدامات اور مراعات کا اعلان کیا ہے یہ نہایت مناسب اور دانش مندانہ فیصلہ ہے کیوں کہ دُنیا بھر میں تعمیراتی صنعت کو مدر انڈسٹری کا درجہ دیا جاتا ہے۔ وہ اس وجہ سے کہ جب تعمیرات کا آغاز ہوتا ہے تو اس سے جُڑی ہوئی چار درجن سے زیادہ صنعتیں بھی متحرک ہو جاتی ہیں اور جب ان صنعتوں اور سروسز کا پہیہ حرکت میں آتا ہے تو روزگار کے مواقع بڑھتے ہیں۔ معاشرے میں سماجی ترقّی کا آغاز ہوتا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جب انسان کو اچھی اور مناسب رہائش حاصل ہوتی ہے تو اس کی ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ معاشرے کی تعمیر اور ترقّی میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کا مطلب میری نظر میں ایک کروڑ ملازمتوں کا پیدا ہونا ہے۔ دُنیا میں سیدھا سادا حساب یہ ہے کہ فی گھر دو ملازمتیں نکلتی ہیں تو لہٰذا پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کا مطلب ایک کروڑ افراد کو روزگار ملنا ہے۔ اس کے علاوہ خدمات کا شعبہ بھی آگے بڑھتا ہے۔
الیکٹریشن، پلمبر، رنگ و روغن کرنے والے طبقے کو مستقبل میں بہت عرصے تک روزگار ملتا ہے۔ میرے خیال میں وزیراعظم نے اس شعبے کا انتخاب کر کے کئی شعبوں کو آگے بڑھنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ علاوہ ازیں یہ فیصلہ ہماری سوسائٹی کے لیے بھی بہت اہم ہے۔ روزی روزگار کے ساتھ ساتھ رہائش بھی انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ جب کسی انسان کو رہائشی سہولتیں حاصل ہوتی ہیں جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیاہے اُس کی ذہنی صلاحیت پر نہایت خوش گوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پھر ہمارے معاشرے میں مہمان نوازی کی ایک خاص روایت ہے لوگ ایک شہر سے دُوسرے شہر میں اپنے رشتے داروں اور عزیز و اقارب سے ملنے کے لیے جاتے ہیں یہ ایک اچھی اور مناسب رہائش ہی کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے۔
جہاں تک پاکستان میں ہائوسنگ کا تعلق ہے تو ہمارے پاس اس حوالے سے مستند اور دُرست اعداد و شمار نہیں ملتے۔ کہا جاتا ہے کہ ملک میں ہر سال سات لاکھ مکانات کی ضرورت ہوتی ہے لیکن بہ مشکل چار لاکھ مکان ہی بن پاتے ہیں۔ کراچی کی مثال لے لیجئے اگر یہاں کی آبادی دو کروڑ ہے اور ہم ایک مکان میں پانچ افراد کی رہائش کا اوسط تخمینہ لگائیں تو کراچی میں تقریباً چالیس لاکھ رہائشی یونٹ ہونے چاہئیں۔ ہائوسنگ سے متعلق دُرست اعداد و شمار کا مرتب ہونا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اندھیرے میں پلاننگ کررہے ہیں۔ کچھ شہروں میں بے شمار رہائشی یونٹ خالی پڑے ہیں اور بڑے شہروں میں کچی آبادیاں قائم ہو رہی ہیں۔ زمین کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے۔ پہلے جب کوئی شخص مکان تعمیر کرتا تھا تو زمین کی قیمت کل لاگت کا پچیس فی صد ہوتی تھی اور بقیہ 75 فی صد تعمیرات کا خرچ ہوتا تھا۔ اب معاملہ بالکل اُلٹ گیا ہے۔ اب تعمیراتی لاگت بیس فی صد اور زمین کی قیمت اسّی فی صد ہوگئی ہے۔
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ کسی حکومت نے زمین کی قیمتوں میں اضافہ کا نوٹس نہیں لیا اور نہ ہی یہ منصوبہ بندی کی کہ خالی پڑی زمینوں کو ایک مربوط نظام کے تحت لایا جائے۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ غیردستاویزی معیشت سے حاصل ہونے والی آمدنی یعنی کالا دھن سب سے زیادہ زمین کی خریداری میں صرف ہوتا ہے۔ جس کے باعث زمین کی قیمت بڑھتی ہے، جب زمین کی ویلیو بڑھتی ہے تو اس سے ہر چیز متاثر ہوتی ہے۔ میرے نزدیک حکومت کو زمین کے معاملات پر توجہ دینی چاہئیے۔ ایک ایسی پالیسی بنائی جائے کہ ہر شہری کو اپنی ضرورت کے مطابق ایک رہائشی پلاٹ مل سکے۔ آج بھی شہروں کے گرد و نواح میں ہزاروں ایکڑ زمین فاضل ہے جو اس وجہ سے آباد نہیں ہو رہی ہے کہ وہاں تک رسائی کے لیے سڑکیں اور دیگر انفرا اسٹرکچر موجود نہیں ہے۔ ہمیں اس کے لیے ایک باقاعدہ نظام بنانے کی ضرورت ہے۔ ایک واضح سمت کا تعین ہونا چاہئے کیوں کہ ہمارے ملک میں ریگولیٹری فریم ورک اچھا نہیں ہے۔ ٹرانسپرنسی کا بھی فقدان ہے۔
میرا اپنا خیال یہ ہے کہ مکانات کی تعمیر کے ساتھ ساتھ بے کار پڑی زمینوں کو قابل رہائش بنانے کی طرف توجہ دی جائے۔ کیوں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زمین کی قیمت بڑھتی جائے گی اور غریبوں کی دسترس سے دُور ہو جائے گی۔ اس وقت رُجحان یہ ہے کہ کاروبار سے حاصل ہونے والا منافع انڈسٹری یا کاروبار میں نہیں لگایا جاتا بلکہ زمین کی خریداری میں استعمال ہوتا ہے۔ اس وقت ہائوسنگ حکومتی سرپرستی سے محروم ہے۔ اگر حکومت مختلف شہروں میں رہائشی اسکیمیں تیار کرے، مناسب سہولتیں فراہم کرے تو اس کا جہاں ایک فائدہ غریبوں کو اپنی رہائش ملنے کی صورت میں ہوگا وہاں ایک بڑا فائدہ دیہی علاقوں سے شہروں کی طرف نقل مکانی کے رُجحان میں کمی کی صورت میں سامنے آئے گا۔
مدثر ایچ خان
منیجنگ ڈائریکٹر / سی ای اوپاکستان مارگیج ری فنانس کمپنی
نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم پاکستان میں پہلی ہائوسنگ اسکیم ہے جس کا وزیر اعظم عمران خان نے اعلان کیا ہے۔ بنیادی طور پر یہ اسکیم ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنے لیے اور اپنی فیملیز کے لیے اپنا گھر خریدنے سے قاصر ہیں۔اپنا گھر ہونا ہر شہری کا خواب ہے جبکہ پاکستان میں پہلے ہی ایک کروڑ 20 لاکھ گھروں کی کمی کا سامنا ہے۔ کم آمدنی والا طبقہ نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم سے سب سے مستفید ہوگا۔وفاقی حکومت نے کم لاگت نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم کی یکھ بھال کے لیے نیا پاکستان ہائوسنگ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (نیفڈا) قائم کی ہے۔نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم کے لیے قرض کے خواہاں کسی بھی شخص کی ماہانہ تنخواہ 30 ہزار سے 40 ہزار روپے تک ہونا ضروری ہے تاکہ وہ قرض کی ادائیگی کرسکے۔حکومت کو پورے پاکستان سے 25 لاکھ درخواستیں موصول ہوچکی ہیں۔
نیا پاکستان ہائوسنگ ڈیولپمنٹ اتھارٹی احساس پروگرام ڈیٹا کے ذریعے درخواست گزاروں کی ذرائع آمدنی،موجودہ وقت میں کتنا کرایہ ادا کررہے ہیں اور دیگر متعلقہ معلومات کی تصدیق کرے گی جس کے بعد اتھارٹی اس سہولت کے لیے اہل ہونے والے لوگوں کی میرٹ لسٹ بنائے گی۔نیفڈا کی سفارشات ملنے کے بعد بینک پروجیکٹ کا لینڈ ٹائٹل چیک کرنے کے بعد الاٹیز کو قرض کی منظوری دیں گے۔الاٹیز یا قرض کے درخواست گزار کو مکان یا اپارٹمنٹ کی قیمت کا 10 فیصد زربیعانہ ادا کرنا ہوگا جبکہ بینک بقایا 90 فیصد ادا کریں گے۔ یہ قرضہ بینک بلڈرز اور ڈیولپرز کو دیں گے۔ پروجیکٹ مکمل ہونے کے بعد الاٹیز کو یہ قرض باقاعدہ قسطوں کے ذریعے ادا کرنا ہوگا۔
وزیراعظم کے اعلان کے مطابق 5 مرلہ (120 یا 125 گز) پر قرض حاصل کرنے والوں کو 5 فیصد شرح سود جبکہ 10 مرلہ (250 گز) کے گھر پر قرضہ لینے والے الاٹیز کو 7 فیصد شرح سود ادا کرنا ہوگا۔5 برسوں کے بعد شرح سود میں اضافہ کیا جائے گا۔5 مرلہ گھر کے مالک کو 7 فیصد جبکہ 10 مرلہ گھر کے مالک کو 10 فیصد سود ادا کرنا ہوگا جبکہ شرح سود کا فرق وزیراعظم کی اعلان کردہ سبسڈی سے ادا کیا جائے گا۔
نیا پاکستان ہائوسنگ ڈیولپمنٹ اتھارٹی بینکوں کے ساتھ کورآڈینیٹ کرکے سرکاری زمین پر بننے والی ہائوسنگ اسکیم میں شامل ہونے والے قرض کے اہل درخواست گزاروں کو قرض کی منظوری میں اور اتھارٹی کے تحت کم لاگت گھروں کے اسکیم میں بلڈرز اور ڈ یولپرزکی مدد کرے گی۔ بینک قسطوں کی ادائیگی مکمل ہونے تک زمین کا سب ٹائیل خود یا ٹرسٹ کے پاس رکھیں گے
بینک نیاپاکستان ہائوسنگ اسکیم کے لیے زمین پر قرض کی منظوری دیں گے یہی معیار بلڈرز اور ڈیولپرز کے لیے بھی ہوگا۔بلڈر یا ڈیولپر زمین خرید کر اس زمین کو بینکوں کے پاس رہن رکھوا کر قرض حاصل کریں گے۔نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم کے لیے شرح سود بھی وہی ہوگا۔بصورت دیگر کمر شل پروجیکٹس کے لیے بلڈرز یا ڈیولپرز کو منظور کیے گئے قرضے پر موجودہ شرح سود کے مطابق ادائیگی کرنی ہوگی۔
جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ یہ پاکستان میں نئی اسکیم ہے ۔اس لیے تعمیراتی صنعت اور بینکنگ انڈسٹری کے لیے بے پناہ مواقع کے ساتھ ساتھ چیلنجز بھی بے پناہ ہیں۔اگر حکومت،بلڈرز اور ڈیولپرز نے اسکیم کے لیے متعین قواعد پر عمل درآمد کیا تو نہ صرف اسکیم کامیاب ہوگی بلکہ تعمیرات اور بینکنگ صنعتوں کو بھی لانگ رن میں پائیدار ترقی ملے گی۔نیا پاکستان ہائوسنگ ڈیولپمنٹ اتھارٹی یعنی پاکستان کے لیے یہ ایک نیا ماڈل ہے اس لیے اتھارٹی پہلے پائلٹ پروجیکٹ کو اختیار کرے گی۔کامیابی کی صورت میں اتھارٹی ملک گیر منصوبوں میں جائے گی۔
مجھے امید ہےاور میری دعا ہے کہ اتھارٹی کامیاب ہو لیکن پاکستان میں اس کی کامیابی کی ہم قطعی پیش گوئی نہیں کرسکتے کیوںکہ ہمارے ملک میں ہم نے بہت سارے ایسے پروجیکٹس کو انکوائریوں اور احتساب کیسز کی نذر ہوتے دیکھا ہے ۔ تاہم میرا خیال ہے کہ اس دفعہ مناسب کام ہوچکاہے اور ہمیں اچھے کی امید رکھنی چاہیے۔ دوسری جانب بینک بڑے پیمانے پر ہائوسنگ قرضے فراہم کرنا سیکھ سکیں گے اور اپنی سرمایہ کاری کا پھل حاصل کریں گے کیوں کہ بینکوں کی جانب سے آسان قرضوں کی فراہمی سے تعمیراتی صنعت کو بوم حاصل ہوگا۔ تعمیراتی صنعت کی ترقی سے دیگر 70 ذیلی صنعتوں کو بھی فروغ ملے گا اور بینک ان صنعتوں کی ترقی کے لیے انھیں قرضے فراہم کرنے کے مواقعوں سے بینکنگ انڈسٹری کو فروغ دے سکیں گے۔بینک اپنے تقریباً کام نہ کرنے والے ذخائر سے بہت کچھ کما پائیں گے۔
اگر ہم چیلنجز کے بارے میں بات کریں تو بینکوں کو سخت محنت کرنی پڑے گی کیوں کہ ان کا کام صرف ہائوسنگ لون کی درخواستوں کی پروسیسنگ تک محدود نہیں ہوگا بلکہ انھیں ہزاروں درخواستوں کی تصدیق اور تجزیے کے لیے مزید تجربہ کار عملے کو شامل کرنا ہوگا۔اس میں کوئی شک نہیں بینک آج بھی گھروں کے لیے قرضے فراہم کررہے ہیں لیکن کم لاگت ہائوسنگ کے لیے ان کے آگے جو ٹاسک ہے وہ ذرا مشکل ہے لیکن ان کی اضافی محنت کے مقابلے میں بینکوں کے فوائد بہت زیادہ ہیں کیوںکہ جیسے ہی تعمیراتی صنعت ترقی کرنا شروع کرے گیا بینکوں کا کاروبار بھی پھلنے پھولنے لگے گا۔