• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر دفعہ، ہر بار جب بھی میں حاکموں اور سیاست دانوں کے کراچی کے بارے میں بیانوں کی بھرمار سنتا ہوں تب شدت سے جی چاہتا ہے کہ میں کراچی کے بارے میں، اور کراچی کے حوالے سے کچھ لکھوں۔ انیس سو چھتیس سے میں کراچی میں ہوں۔ ملازمت کے دوران اٹھائیس برس اسلام آباد کے بن واس میں گزارنے کے دوران میں مسلسل کراچی سے رابطہ میں رہتا تھا۔ میرا گھر بار کراچی میں تھا۔ میرا اوڑھنا بچھونا کراچی میں تھا۔ میں اسلام آباد میں بنواسی تھا۔ میری یادوں کا مسکن کراچی تھا۔ ویسے بھی، جس شہر میں آپ اپنا بچپن اور جوانی گزارتے ہیں، وہ شہر آپ کبھی نہیں بھلاتے۔ تقسیم ہند سے پہلے میں نے کراچی کو کراچی کے عروج میں دیکھا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد میں نے کراچی کا زوال دیکھا ہے۔ آسماں کو چھوتی ہوئی عمارتوں کے جنگل میں مجھے میرے شہر کراچی کی بازگشت نہ دکھائی دیتی ہے اور نہ سنائی دیتی ہے۔ آبادی میں ریکارڈ توڑ ڈالنے والے اضافے اور کانکریٹ جنگل میں میرا پرانا شہر کراچی گم ہوگیا ہے۔ اپنے ڈھائی لاکھ آبادی والے شہر کو میں ڈھائی کروڑ آبادی والے شہر میں کہاں تلاش کروں؟ کہاں گیا وہ ٹرام وے سسٹم؟ آپ ٹرام میں سوار ہوکر کراچی کے کسی بھی حصے میں جاسکتے تھے، پھر چاہے وہ صدر ہو، سولجر بازار ہو، بولٹن مارکیٹ ہو، چاکی واڑا ہو، لارنس روڈ ہو، گارڈن ہو، کیماڑی ہو، آپ جہاں چاہیں جاسکتے تھے۔ کہاں گئیں وہ ڈبل ڈیکر بسیں؟ کہاں گئے وہ صاف ستھرے چمکتے ہوئے راستے؟ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر راستوں کے دونوں طرف جانوروں کے لئے پینے کے پانی کے حوض ہوتے تھے۔ بندر روڈ ایکسٹینشن سے لے کر بولٹن مارکیٹ تک بندر روڈ کے دونوں اطراف فٹ پاتھ پر بنچ نصب ہوتے تھے۔ بنچوں کے درمیان بادام، نیم اور پیپل کے درخت ہوتے تھے، بیچ بیچ میں املی اور امل تاس کے درخت اور برگد کے پیڑ بھی۔ کولمبو اور بمبئی کی طرح کراچی ٹراپیکل شہر ہوتا تھا۔ نو مہینے بادل شہر سے آنکھ مچولی کھیلتے رہتے تھے۔ کبھی مطلع ابر آلود، کبھی بوندا بادی، کبھی ہلکی، کبھی موسلادھار بارش ہوتی رہتی تھی۔ راستے اور فٹ پاتھ دھلے دھلے رہتے تھے۔ کہاں گیا وہ ٹراپیکل شہر کا موسم؟ میرے گم گشتہ شہر میں ہندو، مسلم سکھ، عیسائی اور یہودی رہتے تھے۔ جین دھرم اور بدھ مت کے پیروکار رہتے تھے۔ مختلف زبانیں اور بولیاں بولتے تھے۔ وہ آپس میں لڑتے نہیں تھے۔ ایک دوسرے کو برا بھلا نہیں کہتے تھے۔ ایک دوسرے سے نفرت نہیں کرتے تھے… احترام کرتے تھے ایک دوسرے کا… عزت کرتے تھے ایک دوسرے کی… تقسیم ہند کے بعد ہندو اور سکھوں کے کراچی سے چلے جانے کی بات سمجھ میں آتی ہے۔ مگر عیسائیوں، یہودیوں، پارسیوں، بہائیوں اور بدھ مت کے پیروکاروں کا کراچی سے چلے جانا سمجھ میں نہیں آتا۔ ہم فقیروں کو ایک بات سمجھ میں آتی ہے۔ وہ سب وژنری Visionary تھے۔ دور رس نگاہ رکھتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ تیس چالیس برس بعد اس شہر میں کیا ہونے والا ہے۔ اپنے ہی شہر میں اقلیت بن کر ان کو اپنے بنیادی حقوق کی بھیک ما نگناپڑے گی۔ اس سے بڑا المیہ کیا ہوسکتا ہے کہ اپنے ہی وطن میں آپ بے وطن ہوجائیں۔ اس المیے سے ہندوستان میں مسلمان اور پاکستان میں غیرمسلم گزر رہے ہیں۔ آپ تعداد میں چاہے کتنے ہی کم کیوں نہ ہوں، بٹوارے سے پہلے کوئی آپ کو( مائنارٹی) اقلیت نہیں کہتا تھا۔ آپ کم تعداد میں ہونے کے باوجود زیادہ تعداد میں ہونے والوں جیسی زندگی گزارتے تھے۔ آپ ڈرے ڈرے اور سہمے سہمے سے نہیں رہتے تھے۔ ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی، یہودی، بدھ مت کے پیروکار اور ایرانی کراچی چھوڑ گئے۔ ایرانیوں کی کراچی کی مخصوص ثقافت پر گہری چھاپ ہوتی تھی۔ کراچی کے چپے چپے پر صاف ستھرے دیدہ زیب ایرانی ریسٹورنٹ ہوتے تھے۔ ایرانی اپنے ریسٹورنٹ کے لئے خوبصورت عمارتوں کے کونوں Corners کا انتخاب کرتے تھے۔ ایرانی ریسٹورنٹ کو دو اطراف سے روڈ ملتے تھے۔ چلے گئے وہ لوگ بھی… شہر کی ایک خوبصورت پہچان اپنے ساتھ لے گئے۔ کراچی کا اصلی شہر اجڑ گیا۔ ایسا اجڑا کہ الوپ ہوگیا۔

بٹوارے کے بعد برصغیر کا کوئی شہر اپنی لاتعداد پہچان اور Milestones سے اس طرح محروم نہیں ہو ا تھا، جس طرح کراچی ہوا تھا۔ نہ جانے کیسے اور کیوں یار لوگوں نے کراچی میونسپل کارپوریشن، ڈی جے سائنس کالج، موہاٹا پیلس اور ہندو جم خانہ کو اب تک بخشا ہوا ہے۔ ممبئی، کلکتہ، دلی، مدراس، احمد آباد، اجمیر، حیدرآباد دکن، لاہور، پشاور ، ڈھاکا اور برصغیر کے سینکڑوں شہر بٹوارے کے بعد تہذیبی، تمدنی اور ثقافتی تہس نہس سے محفوظ رہے ہیں۔ میرے شہر کو اغیار نے نہیں اجاڑا۔ اپنوں نے اجاڑا ہے۔ آگے کچھ لکھتے ہوئے مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ جب پاکستان بنا تھا تب سی آئی ڈی CID نام کا ایک ہی ادارہ تھا جو ہمارے لکھے ہوئے الفاظ اور ہماری نیتوں کی چھان بین کرتا تھا۔ اب خیر سے کئی ادارے عالم وجود میں آچکے ہیں جو سی آئی ڈی والے کام کرتے ہیں۔ ہمیں محب وطن یا غدار ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہیں۔ وہ کھوج لگاتے رہتے ہیں کہ ہم کس دشمن ملک کے ایجنٹ ہیں۔ کونسے دشمن ممالک ہماری مالی مدد کرتے ہیں۔ وہ یہ بھی جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم دہریے ہیں، ملحد ہیں، کافر ہیں، یا پھر کمیونسٹ ہیں۔ میں ان اداروں سے بہت ڈرتا ہوں۔ اگلے ایک ہفتہ تک میں سوچتا رہوں گا کہ مجھے اپنوں کے ہاتھوں کراچی کے اجڑنے کا قصہ لکھنا چاہئے یا کہ نہیں۔

تازہ ترین