ابتدا میں پرفارمنگ آرٹ صرف اسٹیج تک محدود تھا، اس لیے اس کو دیکھنے والے اور پذیرائی کرنے والے بھی کم تھے، لیکن ریڈیو، فلم اور ٹیلی ویژن کے آنے کے بعد تو تماش بینوں کا حلقہ وسیع ہوگیا، جس سے فن کاروں کی پذیرائی میں بھی اضافہ ہوا۔ مزاح کے نئے نئے انداز متعارف ہونے لگے۔ اس کے باوجود اسٹیج ہو یا ریڈیو، فلم ہو یا ٹیلی ویژن سب کا انداز اپنا اپنا تھا۔
ان کی وجہ سے تحریری مزاح یا اسٹیج پرفارمنس ختم نہیں ہوئی، بلکہ اس میں بھی نت نئے تجربے ہونے لگے، جس کی وجہ سے ان کی مقبولیت اپنی جگہ قائم و دائم رہی۔ یہ وہ وقت تھا ، جب فلمیں ہالی وڈ میں بنتی تھیں اور اس وقت اس کا دورانیہ بھی کم ہوتا تھا، اس لیے انہیں شارٹ فلم کہا جاتا تھا۔ فلموں اور ٹیلی ویژن پر پیش کیے جانے والے ڈراموں کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں، جن کا ان میں خیال رکھا جاتا ہے۔ ایکسپرٹ کی ایک پوری ٹیم جاکر ایک فلم یا ڈرامہا پروڈیوس کرتی ہے۔
اس میں کیریکٹر کا بہت خیال ہوتا ہے، جب کہ تحریری مزاح میں صرف مزاح نگار کی ضرورت ہوتی ہے۔ تحریری مزاح کی طرح فلم اور ٹیلی ویژن کے ڈراموں میں بھی کئی کردار مشہور ہوئے۔ ان کی شہرت اتنی زیادہ ہوئی کہ ان کو ادا کرنے والے فن کار امر ہوگئے اور آج تک ان کے کرداروں کے حوالے سے ان کی شہرت قائم ہے۔ مثلاً Voice Letsفلموں سے لے کر بولتی فلموں تک بسٹرکیٹن اور چارلی چپلن جیسے فن کاروں نے مزاحیہ فلموں سے وہ مقام حاصل کیا، جو کسی دوسرے کو حاصل نہ ہوسکا۔ چارلی چپلن تو مزاح کا Icon بن گئے۔ ایک طویل عرصے تک اس فن کار نے فلم انڈسٹری پر راج کیا اور فلموں کے ذریعے لوگوں کو ہنسایا اور محظوظ کیا۔
چارلی چپلن
16؍اپریل 1889ؤ کو لندن میں پیدا ہونے والے چارلی کو کون کہہ سکتا تھا کہ ایک دن یہ شخص پوری دُنیا میں مزاح کی علامت بن جائے گا، ساری دنیا کے فن کار اس کی نقل کرنے میں فخر محسوس کریں گے۔ برصغیر میں راج کپور نے چارلی کو کچھ معاملات میں نقل کرنا شروع کیا۔ پتلون کے پائنچے اس کے انداز میں اوپر چڑھانا اور خواتین کو دیکھ کر چارلی کی طرح ہیٹ آف کرنا وغیرہ وغیرہ، تو لوگوں نے اس کو بڑا پسند کیا۔
چارلی کا بچپن غربت میں گزرا، بچپن ہی سے چارلی کو شوبز میں دل چسپی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کی ماں ایک اسٹیج آرٹسٹ تھی۔ چارلی نے ابتدا ہی سے طے کرلیا تھا کہ وہ شوبز میں اپنا مقام بنائے گا۔ معاشی دبائو کی وجہ سے اسے بہت سے ایسے کام کرنا پڑے، جن کا شوبز سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ مگر یہ کام اس کے دل سے شوبز سے لگائو کو کم نہ کرسکے۔ پھر وہ وقت آیا، جب اس کا خواب حقیقت میں بدل گیا۔ اس کو مشہور سیریز شرلاک ہومز میں دل چسپ کردار مل گیا، جو اس نے بڑی محنت سے کیا۔
اس طرح اس نے پروڈکشن ہائوس میں اپنی جگہ بنا لی، پھر اسی پروڈکشن ٹیم کے ساتھ اس نے اپنا پہلا امریکا کا ٹور کیا، جہاں ہالی وڈ کے مشہور پروڈیوسرز سے اس کی ملاقات ہوگئی۔ میک نے چارلی کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے اسے 150؍ڈالر فی ہفتہ معاوضے کی آفر کی جو چارلی نے قبول کرلی۔ بس یہیں سے اس کی زندگی میں تندیلی آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے چارلی مزاحیہ فلموں کا سپر اسٹار بن گیا۔ چارلی کو زندگی میں وہ سب کچھ حاصل ہوگیا، جس کی اس نے تمنا کی تھی۔ دولت، شہرت، عزت و مقام سب ہی کچھ مل گیا۔ چارلی کا سفر گونگی فلموں سے شروع ہوکر بولتی فلموں پر ختم ہوا۔
چارلی کی فلموں کی ایک لمبی فہرست ہے، ان میں چند مشہور فلموں میں ’’سٹی لائٹ‘‘ ’’موڈرن ٹائمز‘‘ ’’گولڈ رش‘‘ ’’دی کڈ‘‘ ’’دی سرکس‘‘ ’’لائم لائٹس‘‘ اور ’’گریٹ ڈکٹیٹر‘‘ دیگر شامل ہیں۔ان فلموں کی کام یابی نے چارلی کو اس مقام تک پہنچا دیا، جہاں تک کسی دوسرے کو پہنچنا نصیب نہ ہوا۔ آخری وقت میں چارلی نے سوئٹزرلینڈ میں سکونت اختیار کرلی اور یہیں 26؍دسمبر 1977ء کو اس کا انتقال ہوا۔مزاحیہ فن کاروں کے ساتھ ساتھ مزاحیہ جوڑیاں بھی متعارف ہونے لگیں۔ ان میں لورل اینڈ ہارڈی تھری اسٹوجیز اور آگے چل کر جیری لوئس اور مارٹن کی مزاحیہ جوڑیوں کو بے انتہا مقبولیت حاصل ہوئی۔
لورل اینڈ ہارڈی
مزاح کے حوالے سے لورل اینڈ ہارڈی اپنے دور کی مقبول مزاحیہ جوڑی تھی۔ دونوں نے ایک لمبے عرصے تک فلموں اور ٹیلی ویژن سیریز میں ایک ساتھ کام کیا۔ شارٹ موویز کے حوالے سے دیکھا جائے تو ہارل اینڈ ہارڈی ہالی وڈ میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے۔ ان سے متاثر ہوکر پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک طویل عرصے تک ’’الف نون‘‘ کے نام سے ایک سیریز چلی، جو ناظرین کو آج تک یاد ہے۔ لورل ایک سیدھا سادہ، مناسب جسامت رکھنے والا ایک فن کار تھا، جب کہ ہارڈی ایک معصوم صورت، موٹا جسم رکھنے والا فن کار تھا۔ ان دونوں کی معصومانہ حرکتیں دیکھ کر فلم بین بے اختیار قہقہے لگانے پر مجبور ہوجاتے تھے۔
اداکاری کے دوران دونوں کی ٹائمنگ مزاح میں لطف پیدا کردیتی تھی۔ دونوں کی کیمسٹری اتنی ملتی تھی کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہوگئے تھے۔ لورل اینڈ ہارڈی کی جوڑی کی کام یابی نے ہالی وڈ میں مزاحیہ فن کاروں پر مشتمل جوڑیوں کے لیے کام یابی کے دروازے کھول دیے اور بہت سے مزاحیہ فن کاروں نے جوڑیاں بنا کر کام شروع کیا۔ ان ہی میں سے ایک جوڑی یا ٹیم تھری اسٹوجیز کے نام سے بنی، مگر اس میں دو کے بجائے تین فن کار شامل تھے۔ یہ ٹیم بھی اپنی نوعیت کی منفرد ٹیم تھی۔
تھری اسٹوجیز میں پہلی مرتبہ تین مزاحیہ فن کاروں پر مشتمل ایک ٹیم متعارف کرائی گئی۔ اس ٹیم میں شامل دو ممبران آپس میں سگے بھائی تھے، جب کہ تیسرا ممبر ان سے الگ تھا۔ مائو ہاورڈ، کرلی ہاورڈ اور لیری فائن پر مبنی مزاحیہ فن کاروں کی اس ٹیم نے ہالی وڈ کی انڈسٹری میں دُھوم مچا دی۔ ان کی بے ساختہ اداکاری دیکھ کر فلم بین نہ صرف قہقہے لگاتے، بلکہ ان کی بے ساختگی کو دیکھ کر عش عش کر اٹھتے۔ ان تینوں فن کاروں کی جوڑی اتنی نیچرل تھی کہ کہیں بھی اداکاری کا گمان نہیں ہوتا تھا۔ اس ٹیم نے 24؍برسوں تک 200؍فلموں میں ایک ساتھ کام کیا۔ مائو ہاورڈ کا پورا نام Moses Harry Harwitتھا۔ اس کا جنم 19؍جوہن 1897ء کو بروکلین میں ہوا۔ تھری اسٹوجیز میں اس کا لیڈنگ رول تھا۔ یہ اپنی ٹیم کا ہیڈ بھی تھا۔ اس کا ہیئر اسٹائل بہت منفرد تھا اور بائول کٹ کہلاتا تھا۔ یہی اس کا ٹریڈ مارک بھی بن گیا تھا۔
اس کے بہن، بھائیوں کی تعداد لگ بھگ نصف درجن تھی، مگر شوبز میں اس کا بڑا بھائی شیمپ ہاورڈ اور اس کا چھوٹا بھائی کرلی ہاورڈ ہی دل چسپی رکھتے تھے۔ تھری اسٹوجیز کی کاسٹ میں مائو کے علاوہ اس کا چھوٹا بھائی کرلی اور لیری فائن جو کہ ایک وائلن بجانے والا تھا، شامل تھے۔ مائو ہاورڈ نے اپنے کیریئر کا آغاز اسٹیج سے کیا اور شیکسپیئر کے کئی ڈراموں میں کام بھی کیا، لیکن اسے زیادہ کام یابی نہیں ملی، لیکن 1972ء کے بعد جب اس نے اپنے بڑے بھائی اور اپنے پُرانے دوست ٹیڈ ہیلی کے ساتھ مل کر ایک ڈراما کیا تو لوگوں نے اسے بہت پسند کیا، بعد میں لیری فائن جو کہ خود بھی مزاحیہ ڈرامے کرتا تھا، مائو کے ساتھ آگیا۔ کچھ اختلافات کی وجہ سے ٹیڈ ہیلی کی جگہ مائو کے چھوٹے بھائی کرلی ہاورڈ نے لے لی۔ اس طرح ان تینوں پر مشتمل یہ ٹیم بن گئی۔ کرلی مائو کا چھوٹا بھائی اور تھری اسٹوجیز کا دوسرا ممبر تھا۔ اس کا نام جیروم ہاورڈ تھا، لیکن فلمی دنیا میں کرلی ہاورڈ کے نام سے مشہور ہوا۔ 12؍اکتوبر 1903ء کو پیدا ہونے والا یہ فن کار بڑی خوبیوں کا مالک تھا۔
اپنی تیز باریک آواز کے علاوہ یہ مختلف آوازیں نکالنے میں بھی ماہر تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ایکشن کامیڈی میں بھی یکتا تھا۔ اس کا زمین پر ایک خاص انداز میں گرنا اور پھر اٹھنا، لوگوں کو بہت پسند تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کرلی اسکول کے زمانے میں اپنی اسکول کی باسکٹ بال ٹیم میں شامل رہا تھا۔ بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے سب اسے بے بی کہہ کر بلاتے تھے، جو کہ اس کو سخت ناپسند تھا۔ پھر اس کے بڑے بھائی کی شادی ہوگئی اور آنے والی دلہن کا نِک نیم بھی بے بی تھا، تو پھر سب گھر والوں نے کنفیوژن کو دور کرنے کے لیے اسے اپنے نام سے پکارنا شروع کیا، تب جاکر اس کی جان چھوٹی۔ بدقسمتی سے 1946ء میں اپنی بیماری کی وجہ سے اسے تھری اسٹوجیز کی ٹیم سے علیحدہ ہونا پڑا اور پھر بیماری کی حالت ہی میں 1952ء میں صرف 48؍سال کی عمر میں اس کا انتقال ہوگیا۔
لیری فائن، تھری اسٹوجیز کی ٹیم کا تیسرا ممبر تھا، جس کا اصلی نام لوئس فن برگ تھا۔ وہ 5؍اکتوبر 1902ء میں فلاڈیلفیا امریکا میں پیدا ہوا۔ یہ ایک گھڑی ساز کا بیٹا تھا، جو اپنی دکان کے ساتھ زیورات بھی فروخت کرتا تھا۔ بچپن میں ایک حادثے کے دوران اس کا بازو تیزاب سے بُری طرح جل گیا تھا، بعد میں معالج کے مشورے پر اس نے وائلن سیکھنا شروع کردیا تاکہ کمزور بازو کی ورزش ہوتی رہے اور وہ قوت حاصل کرسکے۔ اس طریقے سے لیری ایک بہت اچھا وائلن بجانے والا بن گیا پھر اس نے اپنے بازو کو مزید طاقت ور بنانے کے لیے باکسنگ سیکھنا شروع کردی اور کام یاب باکسر بن گیا، مگر والد کی مخالفت کی وجہ سے اس نے باکسنگ چھوڑ دی۔ بعد میں اس نے اپنی بیوی کے ساتھ اسٹیج پر کامیڈی پلیز کرنا شروع کردیے اور یُوں اس نے تھری اسٹوجیز کو تیسرے ممبر کی حیثیت سے جوائن کیا اور ایک کام یاب مزاحیہ اداکار کی حیثیت سے خود کو منوایا۔
کرلی کی جلد موت نے اس ٹیم کو توڑ دیا۔ اس کے بعد لیری فائن بھی 24؍جنوری 1975ء میں ایک نرسنگ ہوم میں انتقال کرگیا اور اس کے صرف تین مہینے بعد مائو کا بھی انتقال ہوگیا۔ اس طرح مزاحیہ فلموں کے ان عظیم اداکاروں کا ایک نہایت شان دار باب بند ہوگیا۔