کہا جاتا ہے کہ کسی بھی ملک کا کوئی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا بلکہ اس کے مفادات مستقل ہوتے ہیں، اپنے ملکی مفادات کے حصول کی جدوجہد میں دوست اوردشمن بدلتے رہتے ہیں۔دور جدید کی خارجہ پالیسی مرتب کرنے کیلئے یہ زریں اصول برطانوی وزیراعظم لارڈ پالمرسٹن (جان ہنری ٹیمپل) سے منسوب کیا جاتا ہے جنہیں انیسویں صدی میں دو مرتبہ برطانیہ کے وزیراعظم کے طور پر ذمہ داریاں سنبھالنا پڑیں، یہ وہ دور تھا جب دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلی عظیم برطانوی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ اسی طرح ایک اورمشہور کہاوت ہے کہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔ آج یہ دونوں کہاوتیں مشرق وسطیٰ میں متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین حیران کن طور پر سفارتی تعلقات استوار کر نے کی خبریں منظرعام پر آنے کے بعدایک مرتبہ پھر سچ ثابت ہوگئی ہیں۔ صرف ایک ہفتے قبل یواے ای کی فضائی حدود میں اسرائیلی پروازوں پر پابندی عائد تھی اور اماراتی سرزمین سے اسرائیل میں ٹیلیفونک رابطہ کرنا ناممکن تھا، آج نہ صرف تل ابیب سے ابوظہبی براہ راست پروازیں چلانے کیلئے بات چیت ہورہی ہے بلکہ دونوں ممالک کے مابین ٹیلی کام رابطہ بھی قائم ہوچکا ہے، تازہ اطلاعات کے مطابق متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کورونا وائرس کی تحقیق میں تعاون کرنے پر رضامند ہو گئے ہیں، دونوں ممالک کے مابین ٹیکنالوجی،ایجوکیشن، کلچر، اکانومی اور ٹورازم سمیت مختلف شعبوں میں بھی دوطرفہ تعاون کیلئے معاہدے زیرغور ہیں۔ قیام ِ اسرائیل کے حوالے سے عرب دنیا اور مسلمان ممالک کا سخت ری ایکشن ایک فطری امر تھا، بانی پاکستان قائداعظم کی زیرقیادت 23مارچ 1940ء کو لاہور کے تاریخی جلسے میں فلسطینیوں کی حمایت میں بھی قرارداد منظور کی گئی۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان نے اپنا نظریاتی تشخص برقرار رکھنے کیلئے عرب دنیا کی طرف دیکھنا شروع کیا، سرد جنگ کے اس زمانے میں جنگ عظیم دوئم کے دو اتحادی ممالک امریکہ اور سویت یونین اب ایک دوسرے کے کٹر مخالف تھے، عرب ممالک کی اکثریت سویت بلاک میں شامل تھی جبکہ پاکستان، سعودی عرب ، ایران اور اسرائیل امریکی کیمپ میں شامل تھے، نکسن ڈاکٹرائین کے تحت سعودی عرب اور ایران کو سپرپاور امریکہ کے خطے میں مفادات کے تحفظ کیلئے ٹوئین پلرز (جڑواں ستون) کا درجہ حاصل تھا، پاکستان نے عربوں کابھرپور ساتھ دیا، عرب اسرائیل جنگ میں پاکستانی جانباز ہوابازوں نے اسرائیلی جہاز مارگرائے، اسی طرح سفارتی محاذ پر پاکستان کا دیرینہ موقف عرب ممالک سے ہم آہنگ ہے۔تاہم گزشتہ چند دہائیوں میں زمینی حقائق تیزی سے بدل چکے ہیں، ماضی کی سپرپاور سویت یونین قصہ پارینہ بن چکی ہے،ہمارا ہمسایہ ملک بھارت جو ماضی میں سویت یونین کا اہم اتحادی اور فلسطینیوں کا قریبی دوست سمجھاجاتا تھا، آج امریکہ کے قریب آچکا ہے اور فلسطینی کاز سے عملی طورپر کنارہ کشی اختیار کرچکا ہے، اسی طرح آج ایران کا شمار امریکہ کی شدید مخالف ریاستوں میں ہوتا ہے، چین اور بھارت کے مابین حالیہ خونی تصادم 1962ء کی جنگ کی یاد دلارہاہے،بھارتی قیادت کی جانب سے متنازع شہریت قانون اورمقبوضہ کشمیر کے انضمام نے خطے کو ایک نئے بحران کا شکار کردیا ہے،بارڈر کے دوسری طرف ہم اپنے دونوں ہمسایہ مسلمان ممالک افغانستان اور ایران کے ساتھ اعتماد کی فضاء قائم کرنے کی جستجو میں مصروف ہیں، بلاشبہ سعودی عرب ہمارے سب سے قریبی اورقابل اعتماددوستوں میں شامل ہے جس نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے،تاہم ہماری اپنی غلطیوں اور بے احتیاطی کے سبب آج سعودی عرب بھی ہم سے دور ہوتامحسوس ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں متحدہ عرب امارات کی جانب سے امریکہ کی سرپرستی میں اسرائیل کو تسلیم کرکے بھرپور دوطرفہ تعاون کیلئے کوششیں تیز کرنا ایک بہت بڑی خبر ہے، تاریخی طور پر 1971ء میں معرض وجود میںآنے والا متحدہ عرب امارات ایک اہم خلیجی ملک ہے جس کی بنیاد بانی شیخ زاید بن سلطان النہیان نے جدید طرز زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے استوار کیں، آج غیرملکی سرمایہ کاری کیلئے پرکشش پالیسیوں کی بناء پر یواے ای یقینی طور پرخطے کی مستحکم ترین اقتصادی قوت ہے، اسی طرح یواے ای حکومت دنیا بھر میں صبر و تحمل اور برداشت پر مبنی طرز زندگی کے فروغ کیلئے کوشاں ہے، گزشتہ برس یواے ای کی جانب سے سال 2019ء کو ایئر آف ٹولرنس (برداشت کا سال)بھی قرار دیا گیا ، ورلڈ ٹولرنس سمٹ کے موقع پر دنیا بھر کے مندوبین کو مدعو کیا گیا، پاکستان سے واحد نمائندگی کیلئے متحدہ عرب امارات کی حکومت کی جانب سے مجھے خصوصی مہمان کے طور پر بلایا گیاجہاں میں نے میڈیا کی طاقت کومعاشرے میں برداشت اور رواداری کے فروغ کیلئے استعمال کرنے پر اظہار خیال کیا۔ یواے ای ، امریکہ اور اسرائیل کے تاریخی امن معاہدے کو ابراہام اکارڈ کا نام دیا گیا ہے جو دین ابراہیمی کے پیروکار مسلمان، کرسچیئن اور یہودیوں کے مابین مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کی بھی عکاسی کرتا ہے، یواے ای نے اسرائیل کو مقبوضہ فلسطین میں غیرقانونی بستیاں تعمیر کرنے سے باز رکھ کر ثابت کردیا ہے کہ وہ برداشت اور رواداری پر مبنی پرامن بقائے باہمی کا عملی نفاذ چاہتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مڈل ایسٹ کی حالیہ پیش رفت کے پس منظر عوامل میں اسرائیل اور عرب ممالک کا ایران کے خلاف ایک پیج پر ہونا بہت اہمیت کا حامل ہے،تاہم اماراتی قیادت کے حالیہ اقدام سے مسلمان ممالک نظریاتی طور پر دو حصوں میں بٹ گئے ہیں، ایک طرف ایران ، ترکی اور فلسطین کی جانب سے نکتہ چینی کی جاری ہے تو دوسری طرف مزید مسلمان ممالک بشمول بحرین، عمان اور سوڈان کی جانب سے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے اشارے مل رہے ہیں، اسی طرح یواے ای اور اسرائیل کے مابین ڈائریکٹ فلائٹس کیلئے سعودی فضاؤں کا استعمال بھی عقلمندوں کیلئے ایک اشارہ ہے، حالات کا تقاضا ہے کہ پاکستان خطے کی صورتحال پر گہری نظر رکھے،ہم حقائق سے آنکھیں نہ چرائیں اورلاتعلقی اختیار نہ کریں بلکہ اپنا ملکی مفاد مقدم رکھتے ہوئے دوٹوک موقف اختیار کریں۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں 00923004647998)