اسلام آباد (تجزیہ طارق بٹ ) شوگر کمیشن رپورٹ پر اپنے فیصلے میں سندھ ہائی کورٹ نے اہم سوالات اٹھائے ہیں جبکہ تمام حکومتوں کی جانب سے صدارتی آرڈننس کے اجرا اور کابینہ میں غیر منتخب ارکان کے کردار کو نظر انداز کر دیا ہے ۔
سندھ ہائی کورٹ نے پٹیشن کی سماعت کے دوران سامنے آنے والے مخصوص ایشوز پر اپنی تشویش ظاہر کی خصوصاً اس بات پر کہ آیا حکومت آئین کی روح پر نیک نیتی سے عمل کر رہی ہے ۔
یہ سوال عدالتی رولنگ میں بھی اٹھایا گیا ۔جس میں کہا گیا ہے کہ آئین کے تحت ملک میں پارلیمانی نظام اور اس کے تحت حکومت ہے ۔منتخب ارکان پارلیمنٹ کو ہی مینڈیٹ حاصل اور وہ جواب دہ ہیں لیکن دکھائی یہ دیتا ہے کہ غیر منتخب افراد کابینہ اجلاس میں شریک ہو تے ہیں جن میں وزیر اعظم کے معونین خصوصی قابل ذکر ہیں جن کی کوئی منتخب آئینی حیثیت نہیں ہے ۔
1973 کا آئین بنانے والوں نے آرٹیکل۔ 92 کے تحت ایسے قلمدان جن کے لئے مخصوص مہارت درکار ہو ،وزیر اعظم کی معاونت کے لئے اس کے لئے پانچ غیر منتخب مشیروں کی گنجائش رکھی جن کا تقرر صدر مملکت وزیر اعظم کے مشورے سے کریں گے۔
عدالتی فیصلے میں بڑی تعداد میں مشیروں اور معاونین اور صدارتی آرڈننس کے ذریعہ حکومت چلانے کی روش کو مسترد کردیا گیا ہے۔