• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے سب سے بڑے اور دنیا کے بڑے شہروں میں سے ایک ، کراچی کو وفاق کے کنٹرول میں دینے اور اسے سندھ سے علیحدہ کرکے ایک نیا صوبہ بنانے کی باتیں ایک بار پھر شروع ہو گئی ہیں ۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ یہ باتیں کہاں سے اور کیوں شروع ہوتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان باتوں کی حمایت یا مخالفت کرنے والی ہر دو طرح کی سیاسی جماعتیں اپنی باتوں پر زیادہ شدت کے ساتھ اپنی سیاست چمکا رہی ہیں ۔ اس سے کراچی کی سیاست کیا رخ اختیار کر سکتی ہے ؟

اس سوال پر بہت سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ کراچی کو وفاق کے کنٹرول میں دینے یا اسے الگ صوبہ بنانے کی باتیں اس وقت سے ہو رہی ہیں، جب 1959ء میں کراچی کی پاکستان کے دارالحکومت کی حیثیت ختم کی گئی ۔ اسلام آباد کو پاکستان کا دارالحکومت بنایا گیا اور کراچی کو سندھ کا دارالحکومت قرار دیا گیا لیکن کراچی کے عوام ایسی باتیں کرنیوالوں کی پچ پر نہیں کھیلے، جس طرح آج سیاسی جماعتیں کھیل رہی ہیں ۔

کراچی میں اگرچہ سیاسی ، لسانی اور گروہی تقسیم بہت گہری رہی مگر کراچی کو سندھ سے الگ کرنے کی حمایت یا مخالفت میں سیاسی کارڈ کو اس طرح کھل کر استعمال نہیں کیا گیا ، جس طرح آج کیا جا رہا ہے ۔ یہاں تک کہ کراچی میں دہشت گردی اور بدامنی کے بدترین دور میں بھی یہ کارڈ اس طرح استعمال نہیں ہوا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کراچی کے ذریعے پاکستان کی سیاست کو کنٹرول کرنے والی قوتوں نے کراچی کی سیاست کو ’’ ڈائنا مکس ‘‘ کے تابع کرنے میں کسی حد تک کامیابی حاصل کر لی ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی بھی اس کارڈ پر سیاست کر رہی ہے ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو اپنی سیاسی حکمت عملی پر بہت سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا ۔ کراچی کے مسائل پر پیپلز پارٹی ، متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) پاکستان اور پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی اور وفاقی حکومتوں میں شامل نمائندوں پر کراچی کوآرڈی نیشن کمیٹی قائم کی گئی ہے ۔ اس کمیٹی کو پیپلز پارٹی نے ردو کد کے ساتھ قبول کیا ہے ۔

پیپلز پارٹی ایک طرف تو اس کمیٹی میں کسی بھی وجہ سے شامل ہے اور دوسری طرف اس نے چند دن پہلے ’’کراچی کو وفاق کے کنٹرول میں دینے کی کوششوں ‘‘ کے خلاف کراچی پریس کلب کے باہر بہت بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا ۔ اس سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کو یقین ہو گیا ہے کہ کچھ قوتیں کراچی کو وفاق کے کنٹرول میں دینے کی کوشش کر رہی ہیں ۔

اس کیساتھ ساتھ سندھ کابینہ نے کراچی کے ضلع غربی کو تقسیم کرکے اس میں سے ایک نیا ضلع کیماڑی بنانے کی منظوری دیدی ہے پیپلز پارٹی کے مخالفین حکومت سندھ کے اس اقدام کی یہ تعبیر کر رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی اپنے سیاسی اثر ورسوخ سےکراچی کے مضافاتی علاقوں کو انتظامی اضلاع میں تبدیل کرکے کراچی کو گھیر رہی ہے ۔

یہ تاثر بھی پیدا ہو رہا ہے کہ پیپلز پارٹی یہ سب کچھ کرکے سندھ میں اپنے اثر ورسوخ والے دیگر علاقوں میں اپنی سیاسی گرفت مضبوط کرنے کیلئے کراچی کارڈ کو بالکل اس طرح استعمال کر رہی ہے ، جس طرح دیگر سیاسی یا لسانی جماعتیں استعمال کرتی ہیں ۔ اگر ایسا ہے تو ان قوتوں کے مقاصد پورے ہو رہے ہیں ، جنہوں نے کبھی کراچی میں حقیقی نمائندہ سیاسی قوتوں کو ابھرنے نہیں دیا اور کراچی کو سیاسی ، لسانی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر تقسیم کرکے کراچی کو اپنے کنٹرول میں رکھا اور اس کے ذریعے پورے پاکستان کی سیاست کو کنٹرول کیا ۔

اب وقت آ گیا ہے کہ کراچی کو سمجھا جائے اور اس کے حوالے سے پاکستان کی سیاست کو سمجھا جائے ۔ کسی امریکی سفیر نے غلط نہیں کہا تھا کہ پاکستان کی حتمی سیاسی جنگ کراچی میں ہو گی ۔ اب کراچی کو اس نہج تک پہنچا دیا گیا ہے ۔ کراچی کا مسئلہ حل کرنا ہے اور اسے مزید تقسیم اور تصادم سے بچانا ہے تو پھر ایسی سیاسی سوچ اختیار کرنا ہو گی ، جس پر نسلی ، لسانی اور گروہی رنگ نہ چڑھا ہوا ہو اور جو کراچی میں رہنے والے تمام گروہوں کیلئے قابل قبول ہو ۔ کراچی کو ’’ Own ‘ ‘ کرنے کی ضرورت ہے ۔

پیپلز پارٹی کی کوئی بھی غلط سیاسی حکمت عملی دور رس نتائج کی حامل ہو سکتی ہے کیونکہ موجودہ حالات میں صرف پیپلز پارٹی ایک ایسی سیاسی جماعت ہے ، جو تمام گروہوں کے لوگوں میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی پوزیشن میں ہے ۔ اسے زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے ۔

اس شہر کی تاریخ یہ ہے کہ 1970ء کے عشرے کے وسط تک کراچی کو کنٹرول کرنے کے لئے لسانی ، نسلی اور گروہی تقسیم مکمل طور پر گہری کر دی گئی ۔ اس سے پہلے یہ شہر جمہوری ، ترقی پسندانہ اور مزدور تحریکوں ، ادب و ثقافت میں روشن خیالی کی تحریکوں کا مرکز تھا ۔ اسکے بعد اس شہر میں رجعتی ، لسانی اور گروہی سیاست مضبوط ہوئی اور اسے جمہوریت کے لئے خطرہ بنا دیا گیا ۔

اس تمام اتار چڑھاؤ کے باوجود کراچی نے اپنا تنوع برقرار رکھا ۔ گہری لسانی ، نسلی اور گروہی تقسیم اور اس شہر کو وفاق کے حوالے کرنے یا سندھ سے الگ کرنے کی باتوں کے باوجود ان باتوں کی مخالفت یا حمایت میں کھلی سیاست اس طرح نہیں ہوئی ، جس طرح آج ہو رہی ہے ۔

پیپلز پارٹی کی قیادت کو چاہئے کہ وہ کراچی کو آزادانہ سیاسی عمل میں لانے کیلئے سیاسی و حکومتی طور پر کچھ فوری اقدامات کرے کیونکہ سندھ حکومت اسکے پاس ہے اور کراچی سمیت پورے سندھ میں وہ سیاسی اہمیت کی حامل بھی ہے۔

تازہ ترین