سینہ پھلا کر مکّے دکھانے والا کمانڈو کس رعونت سے کہا کرتا تھا ”میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں“ لیکن وہ پرلے درجے کا بزدل نکلا۔ بہادر آدمی کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ کوئی مشکل آن پڑے تو وہ اپنے دوستوں اور ساتھیوں کو پیچھے دھکیلتے ہوئے مردانہ شان کے ساتھ سامنے آکھڑا ہوتا ہے کہ ”آؤ، اپنے خنجر آزماؤ میں ہوں تمہارا مجرم۔ میرے دوستوں اور ساتھیوں کا کوئی قصور نہیں، جو سزا دینی ہے مجھے دو“۔ بزدل کی پہچان یہ ہے کہ وہ کڑا وقت پڑنے پر مریل چوہے کی طرح دبک جاتا اور اپنے ساتھیوں کو سامنے کھڑا کرکے اپنی ڈھال بنانے کی کوشش کرتا ہے۔
پاکستانی حکمرانوں کی تاریخ میں سب سے زیادہ ”میں“ کا صیغہ استعمال کرنے والا خود پرست ڈکٹیٹر آج کہاوت کی وہ بندریا بن گیا ہے جس کے پاؤں جلنے لگتے ہیں تو اپنے بچوں کو پاؤں تلے رکھ لیتی ہے۔ نو برس تک وہ ناقوس حکمرانی بجاتا رہا۔ آئین اس کے اشارہٴ ابرو کا نام تھا۔ قانون اس کی جنبش لب سے پھوٹتا تھا۔ پوری فوج اس کی ”زنجیر کمان“ سے بندھی تھی اور سول انتظامیہ غلامان دربار کی حیثیت اختیار کر گئی تھی۔ حاکم وقت وہ تھا، فرمان اس کے نام سے جاری ہوتے تھے ”چیف ایگزیکٹو، کی کلاہٴ افتخار اس کے سر پہ سجی تھی، کر و فر اس کا تھا، جاہ و جلال اس کا تھا، خدام اس کی دہلیز پہ دست بستہ کھڑے تھے، کنیزانِ حرم اس کے قدموں پہ گل پاشی کیا کرتی تھیں، موسم اس کی پیشانی سے پھوٹتے اور ہوائیں اس کی اداؤں سے اذن خرام لیتی تھیں۔ وہ شہنشاہوں کے سے تفاخر کے ساتھ یوں اکڑ کے چلتا تھا جیسے زمین کا سینہ دہلا رہا ہو، انسانوں پہ یوں نگاہ ڈالتا جیسے وہ حشرات الارض ہوں۔ لوگوں سے یوں ہم کلام ہوتا جیسے وہ سو پشتوں سے اس کے غلام ہوں۔
طاقت کے نشے میں چور، وہ ایک بدمست ہاتھی کی طرح آئین و قانون کے کانچ گھر میں رقص کرتا رہا۔ کس کے لئے؟ کیا ان دوستوں اور رفیقوں کے لئے جنہیں آج وہ بندریا کی طرح اپنے پاؤں کے نیچے رکھ رہا ہے؟ کیا ان کی خاطر اس نے وزیراعظم کو ہائی جیکر قرار دے کر ملک بدر کیا تھا؟ کیا نواز شریف کی کرسی کسی دوسرے جرنیل نے سنبھالی؟ اس نے جرنیلوں کا ایک جتھہ ہمراہ لے کر ایوان صدر پر یلغار کی۔ صدر تارڑ نے مستعفی ہونے سے انکار کردیا۔ اس نے ایک پی سی او جاری کرکے صدر کو گھر بھیج دیا۔ دوسرا پی سی او جاری کرکے اس نے خود کو صدر بنالیا۔ کیا اس نے سوچا کہ وہ پہلے ہی چیف ایگزیکٹو ہے، صدر کا عہدہ کسی اور رفیق کو سونپ دے؟ وہ برسوں وزیراعظم، صدر مملکت، آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے عہدے سنبھالے بیٹھا رہا۔ اسے اپنے رفیقوں کا خیال نہ آیا کہ ان کا بھی کوئی استحقاق ہے۔ آج جب اس کی سیاہ کاریاں شیش ناگ کی طرح پھن پھیلا کر اس کے سامنے کھڑی ہوگئی ہیں تو وہ ایک کم ہمت بزدل لڑکے کی طرح منمنا رہا ہے۔ ماسٹر جی! میں نے نہیں، یہ تو ان لڑکوں نے کیا ہے؟ اسے کچھ تو مردانگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے؟ عدالت عظمیٰ کو بتانا چاہئے۔ ”مائی لارڈ! میں ذاتی طور پر ذمہ دار ہوں، میں فوج کا سربراہ تھا۔3نومبر 2007ء کو ایمرجنسی کا نفاذ میرے دستخطوں سے ہوا۔ میں نے اعلامئے میں کہا تھا کہ …”میں جنرل پرویز مشرف، ایمرجنسی نافذ کررہا ہوں“۔ میں نہ چاہتا تو کسی کو اس اقدام کی ہمت نہ ہوتی۔ کسی کو اس کی ضرورت بھی نہ تھی۔ مسئلہ میرے صدارتی انتخاب کا تھا۔ میں بضد تھا کہ وردی سمیت صدارتی انتخاب لڑوں گا۔ مجھے معلوم ہوا تھا کہ سپریم کورٹ کے جج اس کی اجازت نہیں دیں گے کیونکہ آئین مانع ہے۔ اس وقت ہوس اقتدار نے میری آنکھوں پہ پٹی باندھ دی تھی۔ مجھے عدالت سے اپنی مرضی کا فیصلہ چاہئے تھا اور وہ آمادہ نہ تھی۔ میرے سامنے ایک راستہ یہ تھا کہ عدالت کا حکم مان لوں اور صدارتی دوڑ سے باہر ہوجاؤں، مجھے یہ منظور نہ تھا۔ سو میں نے دوسری بار آئین توڑا، دوسری بار ججوں کو فارغ کیا، دوسری بار اپنی مرضی کی عدالت بنائی اور دوسری بار اپنی مرضی کا فیصلہ لے کر صدر بن گیا۔ میرے اس اقدام سے میرے کسی فوجی دوست، کسی رفیق کو رتی برابر فائدہ نہیں ہوا جو بھی فائدہ ہوا میری ذات کو ہوا۔ سو میں حاضر ہوں، میری گردن حاضر ہے۔ آرٹیکل 6 کا پھندا میری گردن میں ڈال دیجئے لیکن میرے دوستوں اور رفیقوں کو کچھ نہ کہئے۔ وہ بے گناہ اور معصوم ہیں۔ میں قتل آئین کا خوں بہا دینے کو تیار ہوں“۔
لیکن اس نے وہی بزدلانہ روش اپنائی جو اس جیسے رعونت مزاج آمروں کا شیوہ ہوتی ہے۔ اس سے بہتر تو صدام حسین ہی نکلا کہ فرعون وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تختہ دار پہ کھڑا ہوگیا اور اللہ اکبر کے نعرے لگاتا ہوئے صلیب پر جھول گیا۔ ”میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں“ کا ورد کرنے والا کیوں اپنے انجام کو سامنے دیکھ کر ملبہ اپنے رفقاء اور اپنے ادارے پہ ڈال رہا ہے۔ فوج نے اس کی کمان میں بڑی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ پہلے اس نے ہزاروں جانباز کارگل کی چتا میں جھونک دیئے پھر اپنی نوکری بچانے کے لئے پوری فوج کو مارشل لا کے دشت بے اماں میں دھکیل دیا۔ پھر امریکہ کے حضور سر بسجود ہوکر پاک فوج کو اس نے ایک بے چہرہ جنگ کی نذر کردیا۔ ہمارے کتنے ہی سرفروش اس بے مقصد جنگ کا ایندھن ہوچکے ہیں پھر اس نے بگٹی کو قتل کرکے فوج کے خلاف نفرتوں کا الاؤ بھڑکایا۔ اس نے نواز شریف کو نشانہ ستم بناکر پنجاب میں فوج کی محبت پر ضرب لگائی۔ یہ اس کی بے ننگ و نام حکمرانی تھی کہ فوج کو سیاسی غلاظتوں میں لت پت کر دیا گیا۔ اس کی غلط کاریوں کے باعث یہ حال ہوا کہ جس وردی پہ عوام پھول برساتے تھے، وہ وردی نشانہ بننے لگی۔ حکم جاری ہوا کہ وردی پہن کر باہر نہ جائیں۔ وہ وردی پہن کر، سر پہ کلاہ رکھ کے سیاسی جلسوں سے خطاب کرنے لگا۔ 12مئی2007ء کو اس نے فوجی سربراہ کی حیثیت سے کراچی کو قتل گاہ میں بدل دیا اور فوج کو ایک فریق بنا ڈالا۔
پرویز مشرف نے آئین و قانون یا پاکستان اور اس کے عوام کے ساتھ جو کچھ کیا، وہ اس عہد کی ایک شرمناک کہانی ہے لیکن سب سے زیادہ ظلم اس نے اپنے ادارے پر ڈھایا۔ فوج آج تک اس دلدل سے نکل نہیں پائی جس میں وہ دھکیل گیا۔ جنرل کیانی نے بصد کوشش 2008ء کے انتخابات کا بھرم قائم کیا۔ فوج کو سیاسی آلائشوں سے دور کرنے کی موٴثر حکمت عملی اپنائی۔ جمہوریت کے ساتھ گہری وابستگی کا مظاہرہ کیا۔ جنرل کیانی نے مارچ 2007ء میں جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف بیان حلفی دینے سے بھی انکار کر دیا تھا جب ہائی ایجنسیوں کے سربراہ ڈھیر ہوگئے تھے۔ بزدل کمانڈو، آرمی چیف تھا تو بھی فوج کی مقدس وردی پہ چھینٹے اڑاتا رہا، اب وہ ریٹائرڈ ہوگیا ہے تو بھی فوج کو اپنی سیاہ کاریوں کی ڈھال بنانا چاہتا ہے۔ فوج نے اسے جرنیل بنایا، سربراہی بخشی۔ اس فوج کے بل پر وہ چیف ایگزیکٹو بنا، صدر بنا، نو برس تک بادشاہت کی۔ اپنے ادارے کے ان ڈھیر سارے احسانات اگر اس کی آنکھ میں حیا کی ہلکی سی رمق بھی جگاتے تو وہ سینہ تان کر کہتا ”میری فوج کو اس قصے میں مت لاؤ، نہ کسی جرنیل کو، نہ کسی سپاہی کو، اقتدار کی عشرتیں اور لذتیں میں نے سمیٹیں، قیمت بھی میں ہی ادا کروں گا“۔
کیا بے لحاظ اور احسان فراموش شخص ہے کہ خود کو بھنور میں دیکھ کر فوج کو بھی گرداب بلا میں جھونکنے کے درپے ہے۔ جنرل کیانی کو ”شریک جرم“ بناکر اس خبث باطن کو مظاہر کررہا ہے جو پرلے درجے کے بزدلوں کا شیوہ ہوتا ہے۔ کیا اس طرح قیامت ٹل جائے گی؟ شاید نہیں۔