اور آخر کار2سال10ماہ کے طویل انتظار کے پاکستان تحریک انصاف کا’’ فلیگ شپ‘‘ منصوبہ بس ریپڈ ٹرانزٹ کی تعمیر مکمل اور BRTکا پہیہ چل پڑا ہے، وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے 13اگست کو باضابطہ افتتاح کرکے منصوبہ عوام کیلئے کھول دیا ہے،70ارب روپے مالیت کا یہ منصوبہ 27کلومیٹر مین ٹریک اور 31سٹیشنوں پر مشتمل ہے جبکہ فیڈر روٹس کی لمبائی 62 کلومیٹر ہے جن پر 146سٹاپس بنائے گئے ہیں ، مین ٹریک کو شہر کے سات مختلف علاقوں سے ملایا گیا ہے تاکہ لوگ اپنے علاقوں سے چھوٹی BRT بسوں میں سفر کرکے مین روٹ تک پہنچ سکیں،بی آرٹی کیلئے 12اور18 میٹر کی 220بسیں خریدی گئی ہیں جن میں 18میٹر کی 92 بسیں مین روٹ جبکہ 128چھوٹی بسیں سات فیڈر روٹس پر چلیں گی، بی آرٹی پراجیکٹ پر ابتدائی تخمینہ 49 ارب 43 کروڑ 60 لاکھ تھا تاہم مسلسل تاخیر اور درجنوں مرتبہ ردوبدل کے بعد نظرثانی شدہ پی سی ون میں اخراجات بڑھ کر 66 ارب 43 کروڑ 70 لاکھ ہوگئے جبکہ اس لاگت میں بھی مزید چار ارب کے قریب اضافہ ہوا ہے۔
یوں منصوبے کی مجموعی لاگت 70 ارب تک پہنچ گئی ،منصبوے کےتین میگا کمرشل پلازے تاحال زیر تعمیر ہیں جن کی تکمیل کی مدت جون 2021 بتائی جاتی ہے تاہم اس کے باوجود صوبائی حکومت نے منصوبہ کا افتتاح کردیا کیونکہ بی آر ٹی منصوبہ تحریک انصاف کیلئے ایک ایسا ایشو بن چکا تھا جو ہر گزرتے دن کیساتھ اس کیلئے اور اس کی صوبائی حکومت کیلئے شرمندہ اورطعنہ زنی کا باعث بنتا جارہا تھا، خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی سابقہ حکومت کے دوران اس وقت کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے پشاور کے عوام کو بہترین سفری سہولیات کی فراہمی کیلئے 2018کے عام انتخابات سے قبل 19اکتوبر 2017 کو’’ بس ریپڈ ٹرانزٹ کا سنگ بنیاد رکھ کر منصوبہ کو180دنوں(6ماہ) میں مکمل کرنیکا اعلان کیا تھا ،صوبائی حکومت کا خیال تھا کہ انتخابات سے قبل بسیں چل پڑیں گی جس کافائدہ وہ الیکشن میں اٹھائے گی۔
تاہم6ماہ میں اس منصوبہ کی تکمیل کے دعوؤں کے برعکس منصوبہ انتہائی تاخیر کا شکار ہوتاچلا گیا بلکہ اس دوران تو ہر طرف سے اس کی شفافیت پر کھلے عام انگلیاں اٹھنے لگیں کیونکہ اس عرصہ کے دوران بی آر ٹی کی وجہ سے پشاور کے عوام انتہائی اذیت اور مشکلات سے دو چار رہے ، شہر کے بیشتر علاقوں میں کاروباری سرگرمیاں ٹھپ،پورے شہر کا انفراسٹرکچر تباہ اور سڑکیں تنگ ہوچکی ہیں ، شہر میں کراسنگ پوائنٹ کم ہونے سے بچوں ، بوڑھوں ، خواتین اور مریضوں کیلئے چمکنی سے حیات آباد تک سڑک پار کرنا مشکل مرحلہ بن چکا ہے یہی وجہ ہے کہ لوگوں کا غم و غصہ بڑھتا اور منصوبہ کی انکوائری کا مطالبہ روز پکڑتا گیا چنانچہ پشاورہائی کورٹ نے ایف آئی اے کو BRTمیں مبینہ بدعنوانی ، بے ضابطگیوں اور کرپشن کی انکوائری کا حکم دیتے ہوئے 40دنوں میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تاہم حیران کن طور پر صوبائی حکومت نے نیب اور ایف آئی اے کو منصوبہ کی انکوائری سے روکنے کیلئے عدالتی فیصلہ کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرکے حکم امتناعی حاصل کیا اور موقف اپنایا کہ تحقیقات کی وجہ سے منصوبہ رک جائیگا، بہر حال اب جبکہ BRT منصوبہ مکمل ہوچکا ہے، اگر اس میں کوئی گڑبڑ اور بے ضابطگی نہیں ہوئی اور تمام تر مراحل شفاف انداز میں طے کئے گئے ہیں تو پھر صوبائی حکومت کو شفاف تحقیقات سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ صوبائی حکومت انکوائری سے جتنا راہ فرار اختیار کرے گی اس کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جائیگا چونکہ صوبائی حکومت خود منصوبہ کی تکمیل کا اعلان کرچکی ہے اسلئے انکوائری روکنے کیلئے جو حکم امتناعی جاری ہوا تھا وہ بھی اب ختم ہونا چاہیےکیونکہ یہ بہانہ ختم ہوگیا ہے کہ تحقیقات کی وجہ سے منصوبہ پر کام کا سلسلہ رک جائیگا،اس بات کی بھی تحقیقات کرائی جائیں کہ پی سی ون کی منظوری کے بعد بھی درجنوں تبدیلیاں کیوں کی گئیں؟ یہ نااہلی کی انتہا ہے کہ ایک منصوبے کے درمیان میں پتہ چل جاتا ہے کہ ٹریک پر دو بسیں ایک ساتھ نہیں گزرسکتی، اس منصوبے کیلئے کتنا قرض لیا گیا؟ کس سے لیا گیا اور کن شرائط پر لیا گیا؟
اس پر سود کی شرح کیا تھی اور کب یہ قرضہ واپس کیا جائیگا؟ آخربی آر ٹی کیلئے 184ملین روپے کی لاگت سے تیار شدہ پشاور بیوٹیفیکیشن منصوبہ کے گرین بیلٹ ، پودوں ، درختوں اور تعمیرات کو کیوں اکھاڑا گیا؟ ،فنڈز کی کوئی کمی نہ ہونے کے باوجود6ماہ کا منصوبہ آخر تین سال میں کیوں مکمل ہوا؟ صوبائی حکومت کو ان تمام سوالات کے جوابات دینا ہوں گے، ویسے بھی بی آر ٹی منصوبہ انتظامی کوتاہی اور مبینہ کرپشن کی داستانوں کی بدترین مثال اور انکوائری کیلئے ایک فٹ کیس ہے اس لئے BRTکا فائل ایک مرتبہ پھر کھلنا چاہیے۔
دوسری جانب خیبر پختونخوا حکومت نے کورونا وبا کا بہانہ بنا کر صوبہ میں بلدیاتی انتخابات دو سال کیلئے ملتوی کردئیے ہیں، اس مقصد کیلئے صوبائی حکومت نےاسمبلی سے قانون کی منظوری لے لی ہے، دو سالوں کی مدت کا آغاز اگست 2019سے ہوگا جب سابقہ بلدیاتی اداروں کی مدت پوری ہوئی تھی اس طر ح صوبائی حکومت کو اگلے سال 2021کے ماہ اگست تک کی مہلت مل گئی ہے، خیبر پختونخوا میں آخری بلدیاتی انتخابات2015میں ہوتے تھے ، اس وقت بھی بلدیاتی انتخابات کا انعقاد سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کے تحت ہوا تھا۔
گزشتہ سال اگست میں مذکورہ بلدیاتی اداروں کا چار سالہ دورانیہ مکمل ہونے سے قبل ہی نئے بلدیاتی انتخابات کی تیاریوں کی ضرورت تھی کیونکہ الیکشن رولز کے مطابق تین ماہ کے اندر نئے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد لازمی ہوتا ہےلیکن ایسا نہیں کیا گیا کیونکہ صوبائی حکومت نے نیا نظام تیار کیا جس میں ضلع کی سطح کا سیٹ اپ ختم کرتے ہوئے اختیارات صوبہ سے براہ راست تحصیلوں کو منتقل کئے گئے اور نچلی سطح پر نیبرہڈ اور ویلیج کونسلوں کو برقرار رکھا گیا۔
مذکورہ نظام کے تحت بھی بلدیاتی انتخابات کے انعقاد نہیں کیا گیا بلکہ جب کورونا کی وبا پھیلنا شروع ہوئی تو بلدیاتی انتخابات کی راہ بند ہی ہوکر رہ گئی جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صوبائی حکومت نے اگلے سال کے وسط تک بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے جان چھڑالی جس کیخلاف اپوزیشن جماعتوں نے اسمبلی میں احتجاج بھی کیا، درحقیقت بلدیاتی انتخابات کا انعقاد صرف موجودہ نہیں ہر جمہوری حکومت کیلئے ناپسندیدہ اور ناقابل قبول رہا ہے، اب جبکہ کورونا وبا پر کافی حد تک قابو پالیا گیا ہے تو باقی معمولات کی طرح اختیاطی تدابیر کیساتھ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بھی ممکن ہے ۔