• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس کا نام اسلم تھا۔ لیکن ہر کوئی اس کو اسلم روڈا کے نام سے جانتا اور پکارتا تھا ۔بلکہ وہ خود بھی اپنا تعارف اسلم روڈا کے نام سے کرواتا تھا۔ اسلم روڈا فیصل آباد سے 40 کلو میٹر کے فاصلے پر ایک چھوٹی سی تحصیل گوجرہ کا رہنے والا تھا۔ گوجرہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل ہے۔ محنتی اور جفاکش لوگوں کی وجہ یہاں زراعت کا شعبہ بڑا مئوثر ہے اور گوجرہ ایک بڑی غلہ منڈی کی وجہ سے بھی جانا جاتا ہے۔ لیکن گوجرہ کی اصلی شہرت اور پہچان کی وجہ اسلم روڈا ہی بنا۔ پہلے تو آپ کو یہ بتانا ضروری ہے کہ اسلم کا نام اسلم روڈا کیوں مشہور ہوا۔ گورنمنٹ کالج گوجرہ کی طرف سے تماشائیوں سے بھرے گراؤنڈ میں ہاکی میچ کے دوران شاندار کھیل کی وجہ سے نہ صرف لوگوں کی توجہ حاصل کی بلکہ اس میچ میں ٹنڈکرا کے کھیلنے کی وجہ سے اسلم روڈا کے نام پر شہرت حاصل کی اسلم روڈا1968ءء میں پہلی مرتبہ قومی ہاکی ٹیم کے لیے منتخب ہوا اور پھر کئی مرتبہ کئی بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ لیکن کچھ سالوں کے بعد اسلم روڈا کے نام میں ایک اور تبدیلی آگئی اور وہ اسلم روڈا سے استاد اسلم روڈا ہو گیا۔ اسلم روڈا نے گورنمنٹ ایم سی ہائی اسکول گوجرہ میں کوچنگ شروع کردی۔استاد اسلم روڈا صبح فجر کے بعد وہاں درجنوں بچوں کو ہاکی کی تربیت دیتا۔ پریکٹس کے بعد گراؤنڈ کو ہموار رکھنے اور بال کی موثر موومنٹ کے لیے گراؤنڈ میں کام کرواتا نظر آتا۔ شام کو وہ اس گراؤنڈ میں جونیئر اور سینئر دوٹیموں پر مشتمل ایک میچ کرواتا۔ جسے دیکھنے کے لیے گوجرہ کے لوگ امڈ آتے اور سارا دن کام کاج سے تھکے ہارے لوگ شام کو اپنے قومی کھیل سے لطف اندوز ہوتے۔ جب اسلم روڈا گھر میں ہوتے تو والدین اپنے بچوں کا ہاتھ پکڑ کر اس کے گھر پہنچ جاتے اور اسلم روڈا سے درخواست کرتے کہ وہ اس کے بچے کو اپنی شاگردی میں لے لے۔ بعض اوقات تو ایسے بچے بھی لائے جاتے کہ غربت کی وجہ سے بچوں نے بوسیدہ کپڑے تو پہنے ہوتے لیکن ان کے پاؤں میں جوتی تک نہ ہوتی لیکن یقینی ریسپانس کے لیے یہ والدین حسب توفیق کسی نہ کسی شخصیت کی سفارش بھی لے آتے یا شخصی سفارش کو بھی اپنے ساتھ لے آتے۔ یوں یہ بچہ استاد اسلم روڈا کی شاگردی میں آجاتا۔ استاد اسلم روڈا ان غریب بچوں کو نہ صرف اپنی شاگردی میں لے لیتا۔ بلکہ اس کو شرٹ نیکر، ہاکی اور شوز کا بندوبست بھی کراکے دیتا۔ استاد روڈا ایک سخت گیر کوچ تھا۔ وہ شام کو میچ کے بعد ہر کھلاڑی کو بلاتا۔ اس کی غلطی بتاتا اور اسے کہتا کہ صبح فجر کے بعد اپنی غلطی یا خامی کو دور کرنے کے لیے وہ کھلاڑی ایک سو مرتبہ یا دوسومرتبہ یہ ڈرل کرے گا اور پھر کھلاڑی کی یہ جرأت نہ ہوتی کہ وہ اس ڈرل سے پہلوتہی کرے چھٹی کرے یا بتائی ہوئی ایکسرسائز کو بتائی ہوئی تعداد میں نہ کرے۔ کیونکہ استاد اسلم روڈا کا یہ بھی ریکارڈ تھا کہ وہ اگر ذاتی کام سے بھی گوجرہ سے باہر گیا ہوا ہے تو رات کو ہر حال میں واپس پہنچ جاتا تھا بلکہ کئی مرتبہ تاخیر ہو جانے پر وہ گھر جانے کی بجائے سیدھا گراؤنڈ چلا جاتااور وہاں درختوں کے جھنڈ میں سے کس درخت پر چھپ کر بیٹھ گیا اور یہ نوٹ کرنے لگا کہ کونسا کھلاڑی اس کی عدم موجودگی کا سوچ کر گھر سوتا رہ گیا یا کس کھلاڑی نے گراؤنڈ میں وہ ڈرل نہ کی ہو جو اس نے بتائی تھی۔ استاد اسلم روڈا احترام کی وجہ سے اپنے شاگردوں کے گھروں میں چلا جاتا اور صبح گراؤنڈ میں آنے کی بجائے سوئے رہنے والے شاگردوں کو مارتے ہوئے گراؤنڈ میں لے آتا۔ اس نے کئی مرتبہ اپنی شاگردی میں شامل اپنے سگے بھائیوں کو ہاکی پریکٹس میں غفلت کی وجہ سے اس قدر پیٹا کہ وہ لہو لہان ہوگئے۔ کوچنگ کے خاص انداز کی وجہ سے استاد اسلم روڈا بعض سینئر کھلاڑیوں کا دماغ ٹھکانے پر رکھنے کے لیے بعض اوقات شام کے میچ کے دوران کسی ایسے کمزور اور کم عمر کھلاڑی کو ایک دوگُر بتا کر اس کے سامنے کھڑا کردیتا کہ وہ سینئر کھلاڑی دانت پیستا رہ جاتا۔ استاد اسلم روڈا کے جنون اور انداز کوچنگ کی وجہ سے گوجرہ کے سینکڑوں کھلاڑیوں کو پی آئی اے، مختلف بینکوں، پاکستان کسٹمز، پاکستان ریلویز، پولیس، آرمی، نیوی، ائیر فورس میں ہاکی کی بنیاد پر ملازمیتں حاصل ہوئیں اوراسلم روڈا کے ایک سو سے زائد شاگردوں نے قومی ہاکی ٹیم کی نمائندگی بھی کی بلکہ پاکستان نے جب بھی کوئی عالمی ٹائٹل جیتا تو اس ٹیم میں گوجرہ کا کوئی نہ کوئی کھلاڑی ضرور شامل ہوتا تھا۔ بلکہ 2012ءء کی اولمپکس گیمز میں قومی ہاکی ٹیم میں شامل توثیق ارشد جو اسلم روڈا کا شاگرد اور بھتیجا بھی ہے اولمپکس میں شامل کم عمر کھلاڑی تھا۔ اسلم روڈا کے شاگردوں میں اس کے بھائی اعظم، ایم رشید، محمد اصغر، جاوید کاریگر، ظفر اور دیگر شاگردوں میں طاہر زمان، ندیم این ڈی، طارق عزیز، مرحوم گول کیپر قاسم، شہباز جونیئر، خاور جاوید، عرفان فانا وغیرہ شامل ہیں جو ایشین گیمز، ورلڈ کپ اور اولمپکس مقابلوں تک پاکستان کی نمائندگی کرچکے ہیں بلکہ طاہر زمان نے عالمی سطح پر خود کو ایک بہترین کھلاڑی کے بعد بہترین کوچ کے طور پر بھی منوایا ہے۔ اسلم ر وڈا کی خدمات کی وجہ سے گوجرہ میں حکومت نے کروڑوں روپے کا ایک اسٹیڈیم بھی بنوایا جس میں مصنوعی گھاس کی آسٹروٹرف بھی بچھائی گئی۔ اسلم روڈا کی ملک کے لیے گراں قدر خدمات ہیں۔ وہ چند ماہ قبل وفات پا گیا ہے۔ کئی قومی ڈیپارٹمنٹس جو اسلم روڈا کی خدمات کی وجہ سے قومی چمپئن بنتے رہے اور پاکستان ہاکی فیڈریشن جو اسلم روڈا کے شاگردوں کی وجہ سے عالمی ٹائٹل جیت کر اپنی واہ واہ کراتی رہی۔ انہوں نے اسلم روڈا کے لیے قومی ایوارڈ کی سفارش تو درکنار ایک تعزیتی ریفرنس کرا کے اس کی خدمات کو خراج تحسین بھی پیش نہ کیا۔ پھر ہم گلہ کرتے ہیں کہ فلاں شخص اپنے ملک کو چھوڑ کر کسی دوسرے ملک شفٹ ہو گیا ہے۔ آئیں اپنے اچھے لوگوں کی قدر کرنا سیکھیں۔
تازہ ترین