زلزلے قدرت کے قہر و غضب کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ زلزلے کی شدت ذرا زیادہ ہوئی کہ زندگی آن کی آن میں اجڑ جاتی ہے ۔ زلزلے قدرتی آفت کہلاتے ہیں لیکن بڑی بڑی تہذیبوں اور ریاستوں کو ملبہ بنا دینے والے زلزلے نہ تو ایٹم بم کی طرح کوئی تابکاری پھیلاتے ہیں ، نہ یہ زلزلے بپھری ہوئی لہروں کو دیواروں کے چہرے پر دے مارتے ہیں، نہ طوفانِ بلا خیز کی طرح مستول و آڑ کو اکھاڑتے ہیں، یہ زلزلے آگ کے شعلے بھی نہیں دہکاتے ان زلزلوں کی کوکھ میں کوئی بیکٹیریا اور وائرس بھی چھپ کر نہیں بیٹھا ہوتا کہ کورونا وائرس یا طاعون کی طرح المناک موت کا تماشہ برپا کر سکیں۔ پھر زلزلے کرتے کیا ہیں؟زلزلے جب کسی بستی کوچے یا خطے سے ٹکراتے ہیں تو ہلکاسا ارتعاش پیدا کرتے ہیں وہ ارتعاش جس کے پیش و رفت کا کل فاصلہ انچ جتنا بھی نہیں ہوتا ،جب شہر کی بنیادوں سے ٹکراتا ہے تو آن کی آن میں آسمان سے باتیں کرتی عمارتیں، مینار ،گھر بازار حتی کہ زمین میں کیلوں کی طرح ٹھونکے گئے پہاڑ بھی یوں ڈھے جاتے ہیں گویا مزدوروں کی بڑی فوج نے مہینوں پھاوڑے چلائے ہوں۔ بس یہ ارتعاش کی قہر خیز جبلت ہے کہ بستیاں ویران اور شہر اجڑ کر تہذیبوں کے قبرستان بن جاتے ہیں جنہیں صدیاں گرد تلے ڈھانپ لیتی ہیں پھر کسی دن کوئی تاریخ کی تلاش میں زمین کھود کر عبرت کے نمونے صدیوں بعد دریافت کرتا ہے۔
میرا دیس بھی بس ارتعاش کی زد میں ہے ہلکے ریکٹر اسکیل کا زلزلہ ہم سے دو ہزار چودہ کے دھرنے میں ٹکرا چُکا جب ریاست کے مقتدر ترین ایوان کے باہر مظاہرین کا راج تھا ،جب عدل کے ایوان کی دیوار پر پوتڑے سکھائے جا رہے تھے۔ جب پی ٹی وی کی نشریات معطل کر کے مبارکباد وصولی اور بانٹی گئی، ریاستی اہلکاروں کو کیل کانٹے اور اسلحے سے لیس مظاہرین سے پٹوایا گیا ۔ اگرچہ یہ زلزلہ بھی کوئی معمولی نوعیت کا نہیں تھا لیکن اپنی تمام تر گھن گرج کے باوجود عوامی طاقت سے محروم اس دھرنے کا ارتعاش بہت جلد تھم گیا اس کے بعد چند ضدی بچوں اور ایک فرمائشی کردار نے بس پڑا رہنے اور باعزت واپسی کی آس میں ڈیرے ڈالے رکھے۔ جو سانحہ اے پی ایس پشاور کے شہداء کی کربناک ترین قربانی کی اوٹ میں لپٹ گیا۔مضبوط ملکی معیشت اور بے انتہاتحمل نے اس زلزلے کی ہلاکت خیزی کو برداشت کر لیا۔
آج پھر یہ اتعاش ہم پر مسلط ہے لیکن اب کی بار توزلزلے کی شدت بھی یوں زیادہ ہے کہ اس کے ریکٹر اسکیل میں تمام تر طاقت جھونک دی گئی ہے۔ اب کے فصیلیں، کلس اور برج گرنا شروع ہو چکے ،اینٹ اینٹ کرکے بنائے گھروندے اوندھے منہ گر رہے ہیں۔ جی ڈی پی گروتھ ریٹ کا اشاریہ منفی ہو چکا۔ دنیا بھر میں صرف کرایہ ادا کر کے مفت ملنے والا پٹرول سو کا ہندسہ پھاڑ کر آگے نکل چُکا، چینی چوروں کے خلاف آپریشن اتنا کامیاب رہا کہ اسکی قیمت دوگنا سے بڑھ چُکی ، سونے کی قیمت ہر روز ایک ہزار کا مزید مطالبہ کرتی ہے، غریب کےلیے خشک نان جس کا وزن ستر گرام بھی نہیں اٹھارہ روپےمیں فروخت ہو رہا ہے، قیامت سی قیامت تو یہ ہے کہ چوکر اور سوجی نکلے آٹے کا قطاروں میں ملنے والا کم وزن تھیلا نو سو کا ہندسہ عرصہ ہوا ٹاپ چُکا، کوئی دال دو سو روپے سے کم میں دستیاب نہیں دودھ اور شہد جیسی بچوں کی بنیادی ضرورت لگژری آئٹم قرار پا چُکی ہیں۔لیکن گھبرانا نہیں ہے کا بے رحم راگ جاری ہے۔
اس راگ سے جو ارتعاش برآمد ہوا ہے اس میں عالمی تنہائی کا نوحہ کندہ ہے۔ سعودی عرب سے متحدہ عرب امارات سے تعلقات میں قومی عزت کا نوحہ سسکیاں لے رہا ہے۔ کشمیر سنبھالا نہیں جاتا جبکہ ایران اور سعودیہ کے مابین ثالثی کے خواہشمند ہیں۔
ارتعاش کی کاری گری سے پوری بستی کھوکھلی ہو چکی ،کوئی دن جاتا ہے کہ بلند فصیلوں کا بھرم ٹوٹ جائے اونچے مکان زمین پر پڑے ہوں ،شیش محلوں کے شیشے چکنا چور ہو جائیں ،ہاتھیوں کے پائیں راستے چٹخ اٹھیں ۔ بڑے بڑے ڈیموں کے پھاٹک ارتعاش کے زیر اثر مضبوط قبضوں اور کنابوں سے اکھڑ جائیں ۔ پھر کھڑی فصلوں کو بھی باڑ کھا جائے اور فیکٹریوں کی چھتیں مشینوں پر آن گریں۔ جھونپڑیاں اور کچے گھر کے مکین تو کب کے لٹے پٹے ملبے کے ڈھیر پر بیٹھے صرف زندہ رہنے کی بھیک مانگ رہے ہیں۔
بے انتہابربادی تو ہو چکی لیکن اب مزید اس زلزلے کو روکنا ہو گا کیونکہ ایوانوں میں اور سیاست میں اجنبی مبینہ حکمرانوں کا اس ملک میں کوئی اسٹیک نہیں لیکن اس زلزلے سے اگر سب کچھ ڈھے گیا تو بھی ملبے تلے دبے نیم زندہ مجھ اور آپ جیسے پاکستانیوں نے یہیں رہنا ہے۔ موجودہ حکومت کا کیا ہے شاید اپنے ہی لائے اس سونامی پر بھی پاکستانیوں سے چندہ خیرات زکوٰ ۃمانگ لے۔
)اویس احمد نورانی سیکرٹری جنرل جمعیت علماء پاکستان و مرکزی ترجمان متحدہ مجلس عمل)