• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کل فرمایاعزت ِمآب چیف جسٹس صاحب نے کہ ”ہم نے سٹیٹس کو توڑ دیا ہے“۔ ”مائی لارڈ اعلیٰ عدلیہ کے اخلاص اور لگن پر دو آراء نہیں لیکن پہلی معذرت یہ کہ اگرآپ کا مطلب فوج کی مداخلت نہ کرنا ہے تواس کے عوامل اور بھی ہیں اور کچھ کریڈٹ فوج کو بھی دیاجائے گا۔البتہ وطن عزیز کی ناگفتہ بہ حالتِ زار کا اشتہار Statusquo کی فتح کااعلامیہ ہی تو ہے۔دوسری معذرت ہماری عدالتیں انصاف بانٹنے میں ہم آہنگی سے قاصر رہیں اور تیسری معذرت کہ عدالتیں کہیں کہیں تکنیکی استطاعت ( Capacity )سے بھی محروم رہیں۔ سیاسی مافیا کے مرکزی گروہ کو آپ نے کمزور ضرورکیا مگرصوبائی گروہ کو مضبوط کرنے میں قانون ممدومعاون نظر آیا۔اللہ تعالیٰ نے آئین پاکستان کے ذریعے انتخابات کے موقع پر تطہیر کاایک موقع دیا، جوگنوادیاگیا۔ تابوت کی آخری کیل جانچ پڑتال کے عمل نے سیاسی مافیا کومضبوط کرکے ٹھونک دی گئی۔ باقی قوم جائے بھاڑ میں جتنے مرضی تبدیلی کے خواب دیکھے اس کی قسمت میں چوروں ڈاکوں کا چارہ بننا ہی لکھا ہے۔ عام آدمی کو مزید ہلکان کرنے کا سہرا قومی اور صوبائی حکومت کے سر پریکساں سج چکا۔مافیا کی سیاست کے حامی عوام کو کیسے مضبوط بنا سکتے ہیں۔گھوڑا اپنے دانہ گھاس سے یاری کرے گا تو کھائے گا کیا ۔
صرف چند سو سر چاہیے تھے ۔اگر عدلیہ اور الیکشن کمیشن ڈٹ جاتے تو درخشاں مستقبل کا سماں بندھ سکتا تھا۔ عزت مآب صاحب قدر دانی نے آپ کو جکڑ لینا تھا۔ آنے والے انتخابات امریکی تسلط کو راسخ کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ جو قوتیں اقتدار میں آنا چاہتی ہیں وہ امریکہ کی کٹھ پتلیوں کی کٹھ پتلیاں ہیں۔ مشرف کا پاکستان آنے سے پہلے خلیجی ممالک میں نواز شریف سے معاملات طے کرناگو کہ معمولی خبر تھی لیکن حکمرانوں کی سمت کا تعین کر رہی تھی ۔ افغانستان اور خطے میں مطلوبہ نتائج پاکستانی فوج کو سو فیصدامریکی تابع کر کے ہی حاصل ہو سکتے ہیں۔آج فوج، الیکشن کمیشن اور عدلیہ سے جو کمال عظمت چاہیے تھی قوم کی بدقسمتی ادارے اس سے جزوی طور پر تہی دامن رہے۔ ہماری تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں امریکہ نے ہمیشہ مطلوبہ نتائج حاصل کیے مزید مستزاد فوج کی عزت اور ساکھ کوبھی متاثرکر گئے ۔ بظاہر توقائد محترم پاکستان کو بدلنے کا نعرہ لگا کر حکومت اینٹھنے کا پروگرام بنا چکے ۔ امابعد وطن عزیز پر کیا بیتے گی وہ قناعت پسند قائدمحترم کی جان کا وبال نہیں انہوں نے مزید کارخانے ، چند اچھے سودے، اندرون ملک بیرون ملک پراپرٹی کے کاروبار کو فروغ، ٹھیکوں میں کمیشن سے دال دلیا نکال ہی لینا ہے ۔ باقی رہے نعرے ”بدلہ ہے پنجاب (سب جھوٹ) ،اب بدلیں گے پاکستان (سب دھوکہ)“۔ موجودہ چراغ جلتے رہے تو وطن عزیز کا مستقبل کرب و تکلیف کے سوا کچھ بھی تو نہیں۔اندھیرا ہی اندھیرا۔
پاکستان کا مستقبل اس وقت تک درخشاں نہیں ہو سکتا اورطبقوں اور فرقوں میں بٹی قوم یک جاں نہیں ہو سکتی جب تک نظام کو اس بنیاد پر استوار نہ کیا گیا جس کا وعدہ بانی پاکستان نے مسلمانانِ ہند سے کیا تھا۔ہمارے معمارانِ وطن نے تو قرارداد مقاصد دے کر ہمیں ایک لڑی میں پرو دیا تھا ۔ میثاقِ مدینہ اور قائداعظم کی پہلی تقریر نے تو اکثریت ، اقلیت کا معاملہ بھی طے کر دیا تھا۔افسوس قوم بنانے کے لیے جس اخلاص، قابلیت اور دیانت کی ضرورت تھی وہ ہمارے سے کوسوں دور رہی ۔حق گوئی اور بیباکی کی جگہ بزدلی، دروغ گوئی ، خیانت قومی تشخص بن چکی۔قیادت کے لیے چار ہی تو عناصر درکار تھے دیانت، اخلاص، دلیری اور عقل۔ بدقسمتی سے موجودہ قائدین دیانت کی سیڑھی پھلانگتے تو اخلاص اور دلیری کا امتحان شروع ہوتا۔ قوم جو مخلص ،صادق اور امین کے لیے ترس گئی تھی عمران خان کی صورت میں تبدیلی کا پیامبر پاکر سرشار ہو گئی۔سازشی عناصر نے جب عوام الناس اور نوجوانوں کو چشمِ تصور میں پاکستان کے مستقبل کا مالک پایا تو ڈیڑھ سال قبل اٹھنے والے سونامی کے سدباب کے لیے جُت گئے ۔ طریقہ واردات ہزاروں سال پرانا۔لوگوں کے دل و دماغ میں گھر کرنے والی پارٹی جو ڈیڑھ سال پہلے غیر رسمی فتح حاصل کر چکی ،ڈانوڈول کیسے ہو گئی ۔کل جب چیئرمین صاحب کے یہ الفاظ سنے کہ” اگر ہم ہار بھی گئے تو بڑی پارٹی ہم ہی ہوں گے“ دھچکا لگا۔عوام ، نوجوان، خواتین تو تبدیلی کو عملی جامہ پہنا چکے تھے ۔کیا خانہ بدوش بہروپیے بھیس بدل کر پارٹی کو اندر سے ڈھانے میں کامیاب ہو گئے ۔ انٹرا پارٹی الیکشن اور ٹکٹوں کی بے ہنگم تقسیم کے ذریعے پارٹی کی چولہیں کیوں ہلا دی گئیں؟۔
کیاPTI میں ایسے عناصر کی سرکوبی کے لیے استطاعت موجود نہیں؟۔ میرا وجدان کہتا ہے کہ انشاء اللہ 11 مئی جہاں دُروغ گو، لٹیروں، اٹھائی گیروں اور خانہ بدوشوں سازشیوں کے لیے کڑا ہوگاوہاں قوم کو خیرہ کن نتائج دے گا،تبدیلی آکر رہے گی۔ قوم سسک سسک کر مرنا نہیں چاہتی وہ تبدیلی چاہتی ہے ۔ایسے تاثر کو زائل کرنا ہو گا کہ لاہور کے اندر حمزہ شہباز اور علیم خان کے ملازمین کے درمیان مقابلہ ہے۔ میانوالی میں ڈاکٹر شیر آفگن کا بیٹا امجد خان تحریک انصاف کے لبادے میں ووٹ کا متمنی،PTI کے اوپر دھبہ ہے ۔ ایسی خبریں تو تحریک انصاف کے جنونیوں کو رنجیدہ کر جاتی ہیں، رنج و تکلیف کو بڑھاتی ہیں۔ تحریک انصاف کا ووٹر پوچھتا ہے لاہور اور میانوالی میں علیم خان اور امجدخان کوآگے کیوں لایاگیا؟عائلہ بی بی کو عمر فاروق او ر علیم خان کو برادرم شامی صاحب کی موجودگی میں ہاتھ جوڑ کر کہا تھا کہ آپ عمران کی سیاست کا حصہ بنیں گے تو تبدیلی کے نعرے کو ضعف پہنچے گا۔ اگر آپ کو تحریک انصاف سے ہمدردی ہے تو اس کی سیاست سے کوسوں دور چلے جائیں۔ آپ کی دلچسپی PTI کی سیاست کو بٹہ لگا سکتی ہے۔ بدنام کر دے گی۔ لیکن جب ذاتی مفادات ترجیح بن جائیں تو بجائے میری عرضداشت کو اثاثہ جانا جاتا جھوٹ اور سازشوں سے میرے اور عمران کے درمیان بُعداور خلیج پیدا کرا دی گئی ۔ میراتو کوئی سیاسی ایجنڈہ تھانہیں البتہ عمران خان ایک دیرینہ ہمدرد سے محروم ہو گیا۔
17 سال اپنی بساط کے مطابق تحریک انصاف کی کشتِ ویراں کی آبیاری کی۔تکلیف میں ساتھ اخلاص ہی کا تو امتحان تھا ؟ شادابی ، شادمانی مطمح نظر تھی نہیں ۔ مجنوں کو تھا جنوں جو بیاباں میں رہ گیا۔ شادابی کی دہلیز پر راستے جدا ہونا جنوں کی خصلت ٹھہری ۔ جنونی وادی ِنورد کو باغ و بہار کا سلیقہ بھی نہ آتا۔ دہائیوں کے ساتھی واقف حال ہیں کہ دیوانگی، جنون اوروارفتگی مزاج کا حصہ رہی ۔ ادھر ویرانے نے داغ ِ مفارقت دی اُدھر دیوانہ چل بسا۔غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی، دیوانہ مر گیا آخر کہ ویرانے پے کیا گزری۔سونامی کے مجنوؤں کو چوری مبارک۔میانوالی جاتے خوف آرہا ہے جہاں ڈاکٹر شیرآفگن اور عمران کی جڑواں تصویر عام ہو گی تو وہاں شیرافگن کا ایک نجی ٹی وی کو دیا گیا آخری انٹرویو بھی پھیل چکا ہو گا۔ڈاکٹر صاحب کا انٹرویو عمران کی شخصیت کو کتنے چاند لگائے گایہ تو وقت ہی بتائے گا۔انٹرویو ملاحظہ کر لیں ”عمران کو برا بھلا کہنے میں کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں۔ 1997/2002 کے الیکشن میں عمران نے محترمہ اور نواز شریف کے خلاف جو زہر اگلااور پھر 2002 میں مشرف سے 3 کروڑ روپے لے کر لوٹا بنااور ریفریڈم کی حمایت میں مہم چلائی ۔ عمران خان 2008 میں دوبارہ قاضی حسین احمد اور نواز شریف کا ٹاؤٹ بن گیا۔ یہ اسمبلی کا رکن بننے کا اہل ہی نہیں ہے(اس کے بعد ناقابل بیان مغلظات ، ناقابل تلافی بدزبانی)۔“
وہ کونسی مجبوری تھی کہ ایسے بیان کے باوجود آپ بمع ہیلی کاپٹر ڈاکٹر شیر آفگن کی چوکھٹ پر پہنچ گئے؟۔ NA-71 جومضبوط قلعہ تھا اس میں دراڑیں کیوں ڈال دیں؟ NA-72 میں کزن ہونا قابل مطعون ٹھہرا جبکہ NA-73/74 میں دو کزنز کو طشتری میں رکھ کرNA کے ٹکٹ پیش کر دئیے جو کہ رفیق احمد خان اور نجیب اللہ خان نے شکریہ کے ساتھ واپس کردئیے ۔ڈاکٹر شیرافگن اور روکھڑی گروپ تو کپڑوں سے زیادہ سیاسی پارٹیاں بدل چکے ہیں۔ ان کی چوکھٹ پر مرکزی نائب صدر ،چچا زاد بھائی انعام اللہ کو ذبح کرنا انصاف کے کون سے تقاضے پورے کر گیا۔ انعام اللہ کی وفاداری کو زدوکوب انصاف اور اخلاص پر کئی سوالات چھوڑ گیا۔ وفاداری کی ایسی کڑی سزا۔ کل کو آپ کے ساتھ کون کھڑا ہو گا؟یہ خنجرانعام اللہ کی پیٹھ پیچھے نہیں گھونپا گیابلکہ NA-71کی سیاست کا” مکوٹھپا“ گیاہے ۔ یہ بات صرف فہم و فراست والوں کو سمجھ آسکتی ہے۔ خاکسارنے تو قومی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر17 سال آپ کی قباء بن کر آپ کو ڈھانپے رکھا اس پر خود کش حملہ عین الیکشن سے پہلے آپ کی قباء کو تار تارکرنا ہی تو تھا۔ #آگیا کتا کھا گیا ،تو بیٹھی ڈھول بجا۔ القاعدہ کی میانوالی موجودگی بدنامی کے علاوہ کچھ نہیں۔ NA-71 کو بچانا ہے تو القاعدہ کو ضلع بدر کرنا ہوگا۔ زنانہ ڈبے کے سوارامیدوارن صوبائی اسمبلی جو اپنی یونین کونسل نہیں جیت سکتے بھلا ان کو چیئرمین صاحب کے نیچے MPA کا امیدوارکیوں بنایا گیا؟۔یہ ساری بے ہنگم وارداتیں NA-71 کو کمزور کرنے کے لیے ہی تو تھیں۔ یونانی کہاوت ہے کہ جب اللہ کسی کوخراب کرتا ہے تو پہلے اس کی مت مارتاہے۔کیا سازشیوں اور نالائقوں کا نرغہ موثر ہو چکا۔میانوالی کے کارکن تلملا رہے ہیں ۔چاہے لاہور کا علیم خان ہو یا میانوالی کا امجد خان۔ خانہ بدوش قائدین ہوں یا بدنام زمانہ القاعدہ۔ورکرز اور پرانے ساتھیوں کی خانہ بدوشوں کے خلاف آہ وبکا پر کان کون دھرے گا؟ پوری دنیا اور ملک کے طول و عرض سے تحریک انصاف کے کارکنوں کے فون آرہے ہیں۔ وہ افسردہ اور آزردہ ہیں۔ سازشیں تو ہمارے خلاف ہونی ہی تھیں ہم خود کیوں ممدومعاون بن گئے۔خانصاحب یہ وقت نہیں ہے سونے کا۔ وطن عزیز کودرندوں اور مافیا سے آپ ہی بچا سکتے ہیں۔ دیوانہ تو مر چکا۔گھٹنوں کے بل چلنے والے بغل بچے اورچُوری کھانے والے مجنوں کسی کام کے نہیں۔یہ آپ سے زیادہ سونامی کے دیوانے ہیں۔عوامی اُمنگوں کی تکمیل فقط آپ کی ذات۔
تازہ ترین