وطن عزیز پاکستان امت مسلمہ کی واحد ایٹمی قوت ہے ۔ جس پرپوری امت مسلمہ کو فخر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین سے کشمیر تک ہر مظلوم وقت اضطراب میں پاکستان کی طرف ضرور دیکھتا ہے اور الحمدللہ اہل پاکستان ہر مرحلہ پر جس قابل ہیں عالمی قوانین کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 5اگست 2019کو ہندوستان نے مقبوضہ کشمیر کے حوالےسے قوانین میں تبدیلی کرتے ہوئے اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم کی قراردادوں کے برخلاف ایسا فیصلہ کیا جس سے پاکستان اور اہل کشمیر اضطراب میں آ گئے ، توقع تھی کہ ہندوستان کے اس قدم کے خلاف عالم اسلام مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی تائید میں کھڑا ہو جائے گا مگر بعض ممالک کے رویہ نے اہل کشمیر و پاکستان کو مایوس کیا۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس پر اگر نظر ڈالیں تو کچھ غلطیاں ہماری بھی ہیں اور کچھ حالات کی ستم ظریفی بھی ۔ 5 اگست کی بھارتی جارحیت کے بعد اسلامی تعاون تنظیم کی طرف سے مختلف مراحل پر پاکستان کے مؤقف کی تائید ہوتی رہی ہےاور جاری ہے ،خود راقم الحروف سے OIC کے سیکرٹری جنرل نے ملاقات کے دوران یہ بات واضح طور پر کہی کہ OIC کسی بھی صورت کشمیر کے مسئلہ پر اپنے مؤقف میں تبدیلی نہیں لائی اور نہ ہی لائے گی اور یہی مؤقف مملکت سعودی عرب کا ہے۔ بد قسمتی سے سوشل میڈیا پر غلط بیانی کا ایسا سلسلہ چل نکلتا ہے کہ جس کو کوئی روک بھی لے تو وہ حقیقت تک پہنچتےہوئےبہت ساری غلط فہمیاں پھیل چکی ہوتی ہیں ۔ پاکستان کا ایک بڑا مطالبہ اسلامی تعاون تنظیم OIC کے وزرائے خارجہ کا کشمیر کی صورتحال پر اجلاس ہے جس کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ وہ سعودی عرب کی وجہ سے نہیں بلایا جا رہا ہے ۔ حالانکہ اس میں اصل رکاوٹ کئی دوسرے ممالک ہیں سعودی عرب ہرگز نہیں ۔ سعودی عرب نے ہمیشہ اور ہر مرحلہ پر پاکستان کا ساتھ دیا ہے اور اس کی بہت ساری مثالیں سب کو معلوم ہیں ۔ گزشتہ ایک سال کی صورتحال پر ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک ٹی وی پروگرام میں دواران گفتگو جذباتی انداز اختیار کرتے ہوئے سعودی عرب کے حوالے سے بعض ایسے کلمات کہے جو کسی بھی صورت مناسب نہیں تھے۔شاہ محمود قریشی کے ان جملوں کے بعد سوشل میڈیا پر بیٹھے ماہرین سب و شتم نے ایسے ایسے فلسفے پیش کیے کہ الامان والحفیظ لیکن الحمدللہ وہ سب قوتیں جو اس صورتحال میں پاکستان اور عرب اسلامی دنیا کے تعلقات میں خرابی چاہتی ہیں ان کو اس وقت ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جب پاکستان کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید (جن کا دورہ سعودی عرب پہلے سے طے تھا) سعودی عرب پہنچے اور اس دورہ کے حوالے سے سعودی عرب کی وزارت دفاع اور نائب وزیر دفاع امیر خالد بن سلمان (جو کہ خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز کے بیٹے ہیں اور ولی عہد امیر محمد بن سلمان کے بھائی ہیں ) کی طرف سے جاری کردہ سوشل میڈیا پیغام اور پریس ریلیز نے پاکستان سعودی عرب تعلقات کی وسعت اور مضبوطی کو سب پر ظاہر کر دیا۔ اگر یہاں میں پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر نواف سعید المالکی کا ذکر نہ کروں تو بخل ہو گا کہ جنہوں نے صورتحال کو سنبھالا اس تاثر کو ،جو ایک محدود طبقہ کی طرف سے پھیلایا جا رہا تھا کہ پاکستان سعودی عرب تعلقات میں کوئی دوری پیدا ہو گئی ہے ، دور کر دیااور اسی طرح کی محنت پاکستان کے ریاض میں سفارتخانہ نے بھی کی۔ سعودی عرب کے ولی عہد امیر محمد بن سلمان کو صرف اس لیے ہدف بنایا جا رہا ہے کہ ان کا وژن 2030 مسلم امہ کو معاشی، اقتصادی اور دفاعی طور پر اپنے قدموں پر کھڑا کر دے گا جو بہت ساری قوتوں کوقبول نہیں ہے ) پاکستان اور وزیر اعظم عمران خان سے ناراض ہیں اور پاکستان اور ترک، قطر، ایران تعلقات کا خاتمہ چاہتے ہیں، حقیقت حال اس کے برعکس ہے امیر محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان اس کا ثبوت تھا اور رہے گا۔ سعودی عرب کے ولی عہد کا پاکستان کی سر زمین پر یہ اعلان کہ وہ سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر ہیں اس محبت کا عملی ثبوت ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے ان سے تعلقات ایک بھائی سے بھائی کی طرح ہیں، یہ بات ذہن میں رہے کہ سعودی عرب کی موجودہ قیادت عالمی حالات اور اسلامی دنیا کے حالات سے بہت باخبر ہے۔ سعودی عرب کے موجودہ وزیر خارجہ امیر فیصل اور ان کی ٹیم حقائق کا مکمل ادراک رکھتی ہے۔