جنوبی پنجاب میں میں محرم الحرام پر امن طریقہ سے گزرگیا، اس سلسلہ میں علمائے کرام ، سیاسی اور سماجی تنظیموں نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے بھرپور کردار ادا کیا، پولیس اور انتظامیہ کی طرف سے بھی فول پروف انتظامات دیکھنے میں آئے اور نہ صرف عزاداروں کو تحفظ فراہم کیا گیا بلکہ تمام جلوسوں کے راستوں پر بھی بہتر انتظامات دیکھنے میں آئے، اگر چہ حکومت کی طرف سے ایس او پیز جاری کیے گئے تھے تاہم دیکھا گیا ہے کہ اکثر مقامات پر اس کا خیال نہیں رکھا گیا، اب محرم کے بعد اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے اور کورونا کیسز کی تعداد میں کیا کمی یا اضافہ ہوتا ہے۔
اس سے اندازہ ہو گا کہ محرم الحرام کورونا کے حوالے سے کیا اثرات چھوڑ گیا ہے، تاہم یہ بات اطمینان بخش ہے کہ جو خدشات ظاہر کیے جارہے تھے کہ اس بار ملک دشمن قوتیں محرم الحرام کے موقع پر شرپسندی کر سکتی ہیں وہ غلط ثابت ہوئے اور یہ عشرہ محرم بخیروعافیت گزر گیا، ہر سال کی طرح اس بار بھی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی محرم الحرام کے دنوں میں اپنے شہر ملتان رہے، انہوں نے مختلف مجالس میں شرکت کی اور پریس کانفرنسیں بھی کرتے رہے، ایک طرف انہوں نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور معاشرتی رواداری کا درس دیا اور دوسری طرف وہ پریس کانفرنسوں میں سیاسی موضوعات پر بھی لب کشائی کرتے رہے، ان کا زیادہ فوکس اس بات پر رہا کہ اب جبکہ یہ ثابت ہوگیا ہے کہ نوازشریف کی صحت اطمینان بخش ہے تو انہیں پاکستان واپس آکر اپنے مقدمات کا سامنا کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ قانونی طور پر ممکن نہ بھی ہو تو اخلاقاً نواز شریف کو بیماری کی آڑ لے کر بیرون ملک مقیم نہیں رہنا چاہیے ،کیونکہ یہاں ان کے مقدمات چل رہے ہیں اور وہ خود بھی سزا یافتہ ہیں ان کا یہ بھی کہنا تھاکہ اپوزیشن حکومت گرانے کیلئے بے مقصد پاپڑ بیل رہی ہے ،آل پارٹیز کانفرنس کا پہلے تو انعقاد ہی ناممکن ہے اگر ہو بھی گئی تو حکومت کو اس سے کوئی خطرہ نہیں ہے ،ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف ملک میں ترقی و خوش حالی کے لیے جو اقدامات اٹھا رہی ہے اس کے جلد نتائج برآمد ہوں گے۔
اپوزیشن یہی چاہتی ہے کہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری نہ کرسکے اس لیے وہ ہر روز ایک نیا شوشہ چھوڑ کر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کرتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اپوزیشن کے پاس تحریک چلانے کے لیے نہ تو عوامی قوت ہے اور نہ اتفاق رائے موجود ہے۔ شاہ محمود قریشی جہاں یہ کہہ رہے تھے تو دوسری طرف مخدوم جاوید ہاشمی نے ایک بار پھر تحریک انصاف پر شدید تنقید کرتے ہوئے یہ کہا کہ اس نے جنوبی پنجاب کو تقسیم کرنے کی سازش کی ہے اور بہاو ل پور میں علیحدہ سیکرٹریٹ بنا کر جنوبی پنجاب کے عوام کو ایک نئی اذیت میں ڈال دیا ہے انہوں نے کہا ملتان ،ڈیرہ غازی خان اور بھکر، میانوالی تک تین کروڑ سے زائد آبادی بنتی ہے، کیا یہ تین کروڑ افراد اب اپنے مسائل حل کرنے کے لئے دور دراز کا سفر کرکے بہاولپور جائیں گے۔
انہوں نے ملتان کے عوام سے اپیل کی کہ وہ متوقع بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کے نامزد امیدواروں کو مسترد کر دیں،اگر اراکین اسمبلی ان کے پاس آئیں تو ان کابھی احتساب کریں کہ انہوں نے ملتان کو اس کے حق دلانے کی بجائے اس کے حقوق کا سودا کیوں کیا، ان کا کہنا تھا کہ وہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ یہ جنوبی پنجاب صوبہ کے خلاف ایک گہری سازش ہے جس کا مقصد صوبہ کی تحریک کو نقصان پہنچانا ہے واضح تفریق پیدا کرکے اس یکجہتی کو پارہ پارہ کر دیا گیا ہے جو جنوبی پنجاب میں علیحدہ صوبے کیلئے نظر آتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ کوئی آواز اٹھائے یا نہ اٹھائے وہ ضرور اس مسئلہ کو اٹھاتے رہیں گے ، تاکہ ان لوگوں کو بے نقاب کیا جا سکے جنہوں نے ملتان کی مرکزی حیثیت کو نقصان پہنچایا ہے۔ ادھر ملتان کے ایم این اے احمد حسین ڈیہڑ ایک بار پھر وزیراعلی عثمان بزدار سے ملے اور انہیں ملتان کے عوام کے تاثرات اور جذبات سے آگاہ کیا جو ملتان کو علیحدہ سیکرٹیٹ کا مرکزی صدر مقام نہ بنائے جانے پر پائے جاتے ہیں انہوں نےوزیراعلیٰ کو آگاہ کیا کہ اگر ملتان کو اس کا حق نہ دیا گیا تو پارٹی کو شدید نقصان پہنچے گا ، یہی صورتحال ڈی جی خان کی عوام کی بھی ہے وہ ملتان کی بجائے بہاول پور میں سیکرٹریٹ بنائے جانے کو اپنے لئے ایک نیا مسئلہ سمجھتے ہیں۔
زرائع کے مطابق وزیر اعلی عثمان بزدار نے انہیں بتایا کہ ان کی اس سلسلہ میں وزیراعظم عمران خان سے بھی بات ہوئی ہے اب تینوں ڈویزنوں کی مشاورت سے کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے گا ،تاہم اس تجویز پر بھی ہورہا ہے کہ جنوبی پنجاب کےلیے 16 سیکرٹریز مقرر کئےگئے ہیں ان میں سے 8 ملتان اور بہاولپور میں بیٹھیں ، احمد حسین ڈیہڑ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا ،اس طرح عوام کو ریلیف ملنے کی بجائے مزید دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا ملتان کو علیحدہ سیکرٹریٹ سےدیئے بغیر عوام کو مطمئن نہیں کیا جا سکتا، اس لئے اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ فوری ہونا چاہیے، یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ شاہ محمود قریشی یا ان کے گروپ کی جانب سے اب اس سلسلہ میں کوئی سرگرمی نظر نہیں آرہی ،وہ گویا اس فارمولے پر مطمئن ہو کر بیٹھ گئے ہیں جو آدھا تیتر آدھا بٹیر کی صورت سیکرٹریٹ کی تقسیم کے حوالے سے بنایا گیا ہے۔
محرم الحرام کے پہلے عشرہ کے آخری دو دنوں میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری زاہد اخترزمان بھی ملتان میں موجود رہے ، یہ گویا ان کا ملتان میں پہلا طویل قیام تھا ،یہاں یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ یسرکٹ ہاؤس ملتان کو جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے لئے مختص کیا جا رہاہے اور اس کی تزئین و آرائش کے لئےڈیڑھ کروڑ روپے مختص کر دیئے گئے ہیں ،دیکھا جائے تو ابھی تک حکومت علیحدہ سیکرٹریٹ کے معاملے پر ایک مبہم صورتحال کا شکار ہے اور غالباً سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کرپارہی ۔