• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنرل (ر) پرویز مشرف کی گرفتاری...تحریر:سید محمد علی عابد… برمنگھم

آج سے چند روز پہلے تک اکثریت یہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کو گرفتار کرلیا جائے گا اور ان پر عدالتوں میں مقدمات کی سماعت شروع ہوجائے گی۔ کیونکہ ہمارے ملک میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں تھی کہ کسی سابق صدر اور ریٹائرڈ جنرل کو اس کے سیاہ کارناموں کے سبب گرفتار کرکے مقدمہ چلایا گیاہو۔ اس کے برعکس ملک کی اعلیٰ عدالتیں جسٹس منیر کے بدنام زمانہ نظریہ ضرورت کے تحت فوجی جرنیلوں کے غیر آئینی اقدامات کو تحفظ دیتی رہی ہیں جس کے نتیجے کے طورپر فیلڈ مارشل ایوب خان کی آئین شکنی اور مارشل لا کو اس نظریہ کے تحت تحفظ ملا جس نے جنرل ضیاء الحق کے طویل مارشل لاء کو جواز اور حوصلہ افزائی بخشی۔ اس کے بعد ریٹائرڈ جنرل پرویزمشرف نے بھی ان مثالوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلم لیگ کی حکومت جو پارلیمنٹ میں دوتہائی اکثریت رکھتی تھی اور جس کے دورتک کوئی ایسا جواز نہیں تھا جس کو مدنظر رکھتے ہوئے اس آئینی حکومت کو چلتا کیاجانا ضروری ہوتا۔ اس حکومت کو اس الزام پر چلتا کیاگیا کہ اس کے لیڈر جو پرائم منسٹر میاں نوازشریف تھے انہوں نے اپنے دفتر میں بیٹھے ہوئے پی آئی اے کا مسافر طیارہ اغوا کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ الزام اپنی ذات میں ہی مضحکہ خیز ہے کہ کوئی شعور انسان اس الزام کو عقل سلیم کی توہین ہی تصور کرے گا۔ قانون کی بنیادی تعریف یہ کہ قانون عقل سلیم کے سوا کچھ بھی نہیں۔ طیارہ اغوا کا الزام عقل سلیم کے منافی کے منافی ہے۔ اس لے جرم بنتا ہی نہیں۔ یہ قانون کے ساتھ ایک ظالمانہ مذاق تھا لیکن بھیڑیا بھیڑ کے بچے کی بے گناہی کو کب تسلیم کرتا ہے اور یہ فیصلہ سناتا ہے کہ اگرتمہارا کوئی قصور نہیں تو تمہارے باپ نے اس طرح کیا تھا اس لئے اس کی سزا تمہیں بھگتنا ہوگی اور میں تمہیں کھلانے کا حقدار ہوں اگر اس مضحکہ خیز دلیل کو مان بھی لیا جائے تو مجرم کو سزا دی جاتی اور اسے عہدے سے ہٹاکر مقدمہ چلایاجاتا۔ اسمبلی دوسرا لیڈر چن لیتی۔ لیکن یہ سارا مذموم ڈراما تو حکومت پر قبضہ کرنے کے لئے تھا۔ اور دلیل وہی باپ کے جرم کی سزا تھی جو بچے کو دی گئی۔
وزیراعظم کے ذاتی جرم طیارہ اغوا کی سزا کے آئین کو دی گئی اور اسے معطل کرکے بھیڑیے کے قانون پر عمل کیا گیا۔افواج پاکستان جو ملک کی سرحدوں، قوم کی عزت وناموس کے مقدس فرض کی ذمہ دار ہیں اور اس فرض کو نبھانے کے لئے اپنی جان کا نذرانہ بڑی خوشی سے پیش کردیتی ہیں ہمارے دلی احترام اور عزت کی جائز حقدار ہیں۔1965میں جب بھارت نے پنجاب پر حملہ کیاتو قوم کا بچہ بچہ اپنے ان بھائیوں کے لئے ہر شے قربان کرنے کو تیار ہوگیا شاعروں نے ترانے لکھے گانے والوں اور گانے والیوں نے ان لفظوں میں جان ڈال دی۔ اپنے سے دس گنا بڑی فوجی قوت سے مقابلہ اس فوج کا اعزاز تھا۔ ریٹائرڈ جنرل پرویزمشرف جیسے طالع آزماؤں نے اس فوج اور اس کے پرستار عوام کے درمیان خلیج ڈال دی اس نے دفاعی کام چھوڑ کر اپنے ملک پر قبضہ کرلیا۔ مسلم لیگ کے دوسرے دور میں جو معاشی ترقی ہورہی تھی وہ سست پڑ گئی اور ملکی معیشت کا جو حال آج ہے وہ پرویزمشرف کے حکومت توڑنے اور خود حکمران بننے کی وجہ سے ہے اگر مسلم لیگ کی معاشی اصلاحات مزید تین سال تک جاری رہتیں تو بجلی، سٹیل ملز اور پی آئی اے نجی ملکیت میں آکر ٹیلی فون، سیمنٹ اور بینکوں کی شرح خوشحال اور کرپشن سے پاک ادارے بن چکے ہوتے۔ لوڈشیڈنگ جو مسلم لیگ کے دور حکومت میں موجود نہ تھی بلکہ پاکستان میں بجلی کی پیداواری صلاحیت ملکی ضرورت سے وافر تھی اور فالتو بجلی بھارت کو فروخت کرنے کی باتیں ہورہی تھیں۔ یہ سب کچھ جنرل صاحب کی ہوس اقتدار کی نظر ہوگیااس جرم کا حساب جرنل صاحب سے لینا قوم پر احسان ہوگا۔ جنرل صاحب اپنے ادارے کے بھی مجرم ہیں یہ اپنی ملازمت کی مدت میں خود ہی اضافہ کرتے رہے اور حقدار جرنیلوں کو ترقی کے موقع سے محروم کرتے رہے۔ کیا یہ اخلاقی جرم نہیں؟ افواج پاکستان کو پرویزمشرف سے اس کا حساب لینا چاہیے۔ ہمارے انتہائی قابل جرنیلوں نے اپنی حق تلفی فوج کے ڈسپلن کی وجہ سے برداشت کی جوان کا قابل قدر کارنامہ ہے۔
ریٹائرڈ جنرل پرویزمشرف نے اپنے مطلق العنان دور میں بڑے بڑے جرم کیے این آر او ان جرائم میں سے ایک ہے۔ سوئٹزر لینڈ کی عدالت میں پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت جو کم ازکم600ملین ڈالر کی ملک کو واپسی کا دعویٰ ریٹائرڈ جنرل پرویزمشرف کے دور میں دائر ہوا تھا۔ اس مقدمے پرقومی خزانے سے کروڑوں ڈالر خرچ ہوئے لیکن رقم کی واپسی آصف علی زرداری کی عیاری۔چالاکی کی وجہ سے موخر ہوتی رہی۔ موصوف عدالت میں پیش ہی نہ ہوئے اور اپنے آپ کو نفسیاتی مریض ہونے کے بیان حلفی دیتے رہے اور ماہرین سے اپنی ذہنی حالت کے بارے میں سرٹیفکیٹ حاصل کرتے رہے۔ موصوف نے فرمایا تھا کہ پاکستان میں جیل کے دوران ان کی زبان کاٹی گئی۔ تشدد کی وجہ سے ان کی یادداشت پر اثر پڑا اور وہ نسیان کے مریض ہوگئے ہیں۔ عدالت انہیں پیشی دیتی رہی، جنرل ر پرویز مشرف نے یہ مقدمہ واپس لے کر قوم کا جو نقصان کیا ہے وہ ان کی جائیداد فروخت کرکے پورا کیاجائے۔ آپ کویاد ہوگا کہ صدر زرداری نے اس مقدمے کے بحال ہونے کو روکنے کے لئے کیا جتن کئے اور تین سال بعد مقدمہ کو ٹائم باٹ(زائد المیعاد) ہونے کے بعد خط لکھا گیا۔دوسرا جرم دوبارہ مارشل لا ء ہے جسے وہ ایمرجنسی پلس کہتے تھے لگاکر آئین شکنی کی اور عدالت عالیہ اور عظمی کے قابل احترام ججوں کو ساتھ جو سلوک کیا اس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔
12مئی 2007ء کو جو وحشت ناک ڈرامہ کھیلا اور چنگیز خان، ہلاکوخان کے مظالم کو بھی مات کرگیا۔ پورا دن کراچی میں انسانوں کا قتل ہوتا رہا۔ لیکن جنرل (ر) پرویز مشرف گجرات کے چوہدریوں کے ہمراہ اسلام آباد میں ناچ گانے اور ڈھول پیٹنے میں مصروف رہے۔ پنجاب کی روایت ہے کہ اگر گلی محلے میں کوئی میت ہوجائے تو شادی والے ڈھول اور باجا بجانا بند کردیتے ہیں اور شادی کی تقریب نہایت سادگی سے اختتام پذیر ہوجاتی ہے۔ کراچی جو ہمارے ملک کا اہم ترین شہر ہے تمام دن لاشیں گرتی برداشت کرتا رہا۔ پرویز مشرف اور ان کے حواریوں کو ذرہ بھر احساس نہ ہوا۔ وہ اپنے رقص ابلیس میں مگن رہے اور شام کے وقت جب یہ وحشیانہ کھیل ختم ہوا تو کمانڈو جنرل نے دونوں مُکے ہوا میں لہرا کر فرمایا دیکھا آپ نے عوامی طاقت کا مظاہرہ یہاں بھی اور وہاں(کراچی میں) بھی۔ انہوں نے بڑے فخر سے اعتراف کیا کہ کراچی میں قتل عام ان کے حکم سے اور ان کے کرائے کے قاتلوں نے کیا تھا۔ اس پر اکتفا نہیں جنرل صاحب نے نادر شاہی حکم دیا کہ اس واقعے کی تفتیش نہیں ہونی چاہئے جس کے نتیجے میں ایک ایف آئی آر بھی درج نہ ہوئی۔ نواب اکبر بگٹی جو بلوچستان کے اہم ترین پاکستان کے حامی اور مددگار تھے پرویزمشرف کے تکبر کا نشانہ بنے یہ بھی جواب طلب واقعہ ہے۔ لال مسجد کا واقعہ بھی ریٹائرڈ جنرل پرویزمشرف کے سیاہ کارناموں میں سے ایک ہے۔ بیگناہ بچیوں کو فاسفورس بم سے جھلسایا گیا
آزاد عدلیہ پر منحصر ہے کہ وہ جنرل(ر) پرویز مشرف سے بے لاگ حساب لے کر انہیں ان جرائم سے بری کرتی ہے یا ان کے ثابت ہونے پر قرارواقعی سزادیتی ہے۔
تازہ ترین