اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا کسی نے ساجد گوندل کے گھر کا وزٹ کیا؟ اُس کے جواب میں پولیس حکام نے کہا کہ ایس پی انوسٹی گیشن اورڈی ایس پی نے اُن کے گھرکا دورہ کیا تھا۔
اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر کسی منسٹر کا بیٹا اغوا ہوتا توکیا صرف ڈی ایس پی اُن کے گھر جاتا؟ انہوں نے کہا کہ سیکریٹری صاحب! کیا وزارت داخلہ، ایف آئی اے اور آئی بی افسران کاروبار میں ملوث ہوسکتے ہیں؟
اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایڈیشنل جوائنٹ ڈائریکٹر ایس ای سی پی ساجد گوندل کی بازیابی کے حوالے سے کیس کی سماعت ہوئی، اس دوران سیکریٹری داخلہ، آئی جی پولیس اور ڈپٹی کمشنر عدالت میں موجود تھے جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کیس کی سماعت کی۔
لاپتہ ایس ای سی پی کے افسر ساجد گوندل کے اہل خانہ بھی عدالت میں موجود تھے۔
دوران سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ چیف کمشنر کہاں ہیں؟ اس پر ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات نے جواب دیا کہ وہ این ڈی یو کی ٹریننگ میں تھے، آرہے ہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ عدالت کو یونیفارم کا احترام ہے اور عدالت بنیادی حقوق کی محافظ ہے، کیا یہ عام کیس ہے؟
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ دارالحکومت صرف چودہ سو اسکوائر میل پر مشتمل ہے، اس چھوٹے علاقے کے لیے آئی جی اور چیف کمشنر موجود ہیں، سب سے بڑی آئینی عدالت بھی اسلام آباد میں ہے، کیا آپ کو معلوم ہے کہ عدالتوں میں اسی نوعیت کی کتنی درخواستیں زیر سماعت ہیں؟
چیف جسٹس اطہر من اللہ کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ ساجد گوندل کی بازیابی کے لیے ہرممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا کہ اگر وفاقی حکومت کے کسی وزیر کے بیٹے کے ساتھ ایسا ہو تو آپ کا رویہ کیا ہو گا؟
انہوں نے کہا کہ ایک اور شہری کے لاپتہ ہونے کے کیس میں بھاری جرمانے کیے گئے، ایف آئی اے، پولیس اور وزارت داخلہ ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں شریک ہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد نے کہا کہ وزیراعظم کا وکلا تحریک میں قانون کی حکمرانی کے لیے اہم کردار تھا، کیا آپ نے انہیں بتایا کہ وفاقی دارالحکومت میں کیا ہو رہا ہے؟ کسی کو تو اس کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے سماعت کے دوران کہا کہ عدالت کو کوئی ایک مثال بتائیں جس میں لاپتہ شہری کو بازیاب کرایا گیا ہو، آپ شہری کو عدالت میں پیش کرنے میں ناکام ہوئے، عدالت انوسٹی گیشن میں مداخلت نہیں کرے گی۔
سیکریٹری داخلہ نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ آج صبح اجلاس میں تمام صورتحال کا جائزہ لیا ہے، اس کے علاوہ اعلیٰ سطح پر تفتیش بھی کی جا رہی ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کی وزارت اور ہر ڈیپارٹمنٹ ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں شامل ہے۔ اس پر سیکریٹری داخلہ نے جواب دیا کہ یہ بات درست نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہر شہری عدم تحفظ کا شکار ہے، یہ صورتحال تشویشناک ہے، معلوم ہوا ہے کہ لاپتہ افراد کے کمیشن نے اس معاملے کا نوٹس لیا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے سوال کیا کہ کیا یہ جبری گمشدگی کا کیس ہے؟ اس کے جواب میں سیکریٹری داخلہ نے عدالت کو کہا کہ ابھی اس سے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ تفتیشی ٹیم کو چیئرمین کمیشن سے پوچھنا چاہیے تھا کہ کیا اُن کے پاس کوئی ذاتی معلومات ہیں؟
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ آپ کی کوششیں نظر نہیں آ رہی ہیں، پٹیشنر کی عمر کیا ہے؟ کیا کسی نے اُن کےگھرکا وزٹ کیا؟ اس کے جواب میں پولیس حکام نے کہا کہ ایس پی انوسٹی گیشن اورڈی ایس پی نے اُن کے گھرکا دورہ کیا تھا۔
پولیس حکام کے جواب پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر کسی منسٹر کا بیٹا اغوا ہوتا توکیا صرف ڈی ایس پی اُن کے گھر جاتا؟ انہوں نے کہا کہ سیکریٹری صاحب! کیا وزارت داخلہ، ایف آئی اے اور آئی بی افسران کاروبار میں ملوث ہوسکتے ہیں؟
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ نیازی نے دوران سماعت کہا کہ اس طرح تو سپریم کورٹ ایمپلائیز کی بھی ہاؤسنگ سوسائٹی ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ رول آف لاء نہیں ہو گا تو کرپشن ہو گی، انہوں نے کہا کہ صرف نیب کرپشن نہیں روک سکتا، اس کے لیے قانون کی حکمرانی بھی ضروری ہے۔