• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمارے سامنے اور ہماری زندگی میں 90سالہ آئی۔ اے رحمان اور قلندر مہمند کی سالگرہ منائی جارہی ہے۔ زندگی بھر جتنی محنت اور کمٹ منٹ کے ساتھ کام کیا ہے وہ لائقِ تقلید ہے۔ کاش ہماری سرکار کو ان کے وجود کی اہمیت کا احساس ہوتا اور ہمارا میڈیا کم از کم ان پر دستاویزی فلم تو بناتا مگر انہیں تو بہت زور شور سے بھنگ اُگانے اور گائوں گائوں کاشت کرنے کے طبی نسخے بتانے سے فرصت نہیں ہے۔ بھنگ تو ایسی چیز ہے کہ جہاں اور جس زمین پر جگہ ملتی ہے خود کو پھیلا لیتی ہے۔ ہمارے وزیر صاحب بھی سائنسی نقطہ نظر سے اس کی ضرورت اور تجارت میں فائدہ مند ہونے کی نوید سنا رہے تھے۔ اس طرح تو مغرب کے تمام ڈاکٹر ریڈوائن کے دو گلاس، دل کے مریضوں کے لئے اہم سمجھتے ہیں۔ ہم مغرب کی تقلید کو ترقی سمجھ کر آگے بڑھتے ہیں۔ ویسے ہمارے ملک کے تقریباً ہر دیہات میں خاص کر گرمیوں میں بادام اور بھنگ کا شربت خوب پیا جاتا ہے۔ صدیوں سے یہ ہمارے کلچر کا حصہ ہے۔ بہرحال کوئی اور نسخہ شام کے مشروب بنانے کا بتائیں تو ہمارے بے گناہ گائوں والے کچی شراب پینے سے نہ مریں۔

کورونا کے باعث مغرب نے بہت سی عادتیں بدل ڈالی ہیں۔ گو اس میں ملازمتوں کی کمی، آمدنی قلیل اور کفایت کا خیال بھی ہے۔ یورپ کے بیشتر ممالک نے گاڑی چھوڑ کر سائیکل استعمال کرنا، صحت کے لئے مفید قرار دیا ہے۔ اسی طرح بیوٹی ایجنسیوں نے جارج فلائیڈ کی موت کے بعد، رنگ گورا کرنے والی کریمیں بنانے اور تشہیر کرنے سے انکار کردیا ہے۔ فیشن ڈیزائنر اور عام خواتین نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ گزشتہ برس کے گرم کپڑے ہی استعمال کریں گی۔ نئے کپڑے نہیں بنائیں گی۔ اس طرح برگر کلچر کو بھی جھٹکا لگا ہے مگر ہمارے ملک میں چونکہ فیشن بھی دیر سے آتا رہا ہے جبکہ اب تو فیشن میں ہماری بچیوں نے مغرب کو کب کا پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ خوش نصیب ہیں افغانستان والے کہ جنہوں نے ہمیں دکھایا کہ خاتون امتحان دے رہی ہے اور ممتحن اس کی بچی کو اُٹھا کر دودھ پلا رہا ہے ہم تو بچی کو مار مار کر شور مچا کر چپ کراتے ہیں۔

بدنصیب ہیں کراچی کے گوٹھوں والے، یہ سمجھ کر کہ بڑے شہر کا حصہ ہو جائیں گے، نالوں پر اور جہاں جگہ ملی چھوٹا موٹا گھر بناکر، بچوں کو چھت فراہم کر دی۔ یہ بےتحاشا، بےنقشہ بلڈنگز اور گھر، لندن والے بھائی اور انکے ساتھیوں کی مدد سے ممکن ہوئے مگر آج بےگھری اور بارش کا گھٹنوں گھٹنوں پانی، اب بھلا کس کو بددعائیں دیں۔ اس زمانے کے کراچی میونسپل کے افسروں کو جو اس وقت آنکھیں بند کئے، ہر طرح کی بےضابطگی کو دیکھتے رہے اور اب وہ سارے غریب کلہاڑے کی زد میں ہیں۔ لندن والے کے ساتھی بھی خاموش ہیں اور موجودہ سرکار تو بس شہر کو صاف کررہی ہے۔ گھروں کی چھتوں پر بیٹھے لوگوں کو وردی والے روز بریانی کھلا رہے ہیں۔ وہ لوگ بھی بریانی سے تنگ آگئے ہیں۔ رہنے کو گھر مانگ رہے ہیں۔بدنصیب ہیں وہ چار لاکھ لوگ جو اپنے علاقوں کو چھوڑ کر سرکار کے مجبور کرنے پر مقبوضہ کشمیر میں دکھاوے کے لئے آباد ہونے جارہے ہیں۔ یوں بھلا کشمیر کا حلیہ بگڑ سکتا ہے۔ آسٹریلیا سے امریکہ تک وہاں کے رہنے والوں کو پیچھے دھکیل کر اور ان کو غلام بناکر رکھنے والے آج ایک ہی کالے کو گولی مار دیں تو پورا ملک احتجاج کے لئے سڑکوں پر ہوتا ہے۔ کیا کہوں بدنصیب کہ خوش نصیب وہ لوگ جو پہلے دہری قومیت پر پارٹیوں سے نکالے گئے۔ مجھے فوزیہ قصوری یاد آرہی ہے تحریک انصاف کو تازہ خون اس نے دیا تھا۔ پھر وہ راندۂ درگاہ ہو گئی اور اب خود دہری قومیت والوں کے لئے فردوسی بنے ہوئے ہیں۔

سی ڈی اے نے پہلے کبھی نہ سوچا کہ گھروں اور بلڈنگز کے نزدیک پیٹرول پمپ یا کارواش کی جگہ نہیں ہونی چاہئے۔ اب میرا احوال سنیں۔ ایف 10میں میری بلڈنگ سے دو قدم پر اور دوسرا پٹرول پمپ دس قدم پر موجود ہیں۔ پٹرول اور کار واش ، جو صحت اور خاص کر بچوں کو نقصان پہنچاتے ہیں اس کا کبھی کسی نے سوچا ہی نہیں۔ مجھے تو ڈر یہ لگ رہا ہے کہ ایف 10کے ساتھ جو گرین ایریا ہے وہ بھی ختم ہو جائے گا کہ وہاں بھی ہائی رائز بلڈنگ بنانے کے خود پرائم منسٹر خواہاں ہیں۔ آپ ایک طرف گرین ایریا ختم کر رہے ہیں، دوسری طرف لاکھوں کروڑوں درخت لگانے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ راول ٹائون، شاہدرہ ٹائون، بنی گالہ اور فارم ہائوسز کو، اسلام آباد میں شامل نہ کریں، ان کی اپنی حیثیت میں رہنے دیا جائے۔ اب ڈر یہ ہے کہ نئے ایئر پورٹ کے پاس جو سینکڑوں ہائوسنگ سوسائٹیز بنائی جارہی ہیں انہیں بھی اسلام آباد میں شامل نہ کر لیا جائے۔ ورنہ کراچی والا طوفان بدتمیزی پھیل جائے گا۔

خوش نصیبی اور بدنصیبی دونوں سیاحت کے زُمرے میں شمار کی جا سکتی ہیں۔ ایک طرف کورونا کو روکنے کا کوئی نظام نہیں، پورے شمالی علاقوں، سوات اور کشمیر میں سڑکوں کا وجود ہی نہیں ہے۔ یہی حال پورے بلوچستان میں ہے۔ لوگ جو آئے وہ پھنس گئے۔ جو نہیں آئے وہ کمروں کےکرائے سن کر، کان لپیٹ کر اپنے گھر بیٹھنے میں راضی۔ سرکار نہ کوئی پیکیج دے رہی ہے کہ فیملیاں آئیں اور دوست اکٹھے ہوکر آئیں اور نہ ٹورسٹ بسیں ہی چل رہی ہیں جس میں باتھ روم اور چائے کا انتظام ہو۔ کوئٹہ میں ہنا لیک اور آگے زیارت میں قائداعظم ریزیڈنسی تک پہنچنے والی سڑکیں۔ بس اور نہ پوچھئے!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین