پنجاب حکومت کی طرف سے عوام کو ریلیف دینے کےلئے بڑے بڑے دعوے کرتی ہے مگر اس کا نہ تو کوئی عمل وجود نظر آتا ہے اور نہ ہی اس کے کوئی اثرات نظر آتے ہیں۔ جس سے عوام میں مایوسی پھیل رہی ہے اور پی ٹی آئی حکومت کی نیک نامی میں کوئی اضافہ نہیں ہو رہا۔اس حوالے سے حکومت اپنی ناقص کارکردگی کو بیورو کریسی کے کھاتے میں ڈال کر جان چھڑانے کی کوشش کرتی ہے اور افسران کے تبادلوں کا سہارا لیتی ہے مگر اس سے مزید خرابی پیدا ہوتی ہے اور پالیسی سازی میں مشکلات پیدا ہوتی ہیں اور پوسٹنگ کی بے یقینی کی وجہ سے افسرشاہی ڈنگ ٹپائو پالیسی اپناتی ہے۔
پنجاب میں تحریک انصاف کی دو سالہ حکومت کے دور میں کئی محکموں اور اداروں کے پانچ پانچ اور کچھ کے سات سات سیکرٹری بھی تبدیل ہوئے ایسے حالات میں ان محکموں اور اداروں کی کارکردگی کس طرح بہتر ہوسکتی ہے۔ حکومت کی افسران کی تقرری سے پہلے میرٹ کی بنیاد پر اچھی طرح سے چھان بین کرنی چاہئے سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل آف پنجاب پولیس کے تعاون سے ایک اچھی ٹیم دینی چاہئے اور پھر ان کو فری ہینڈ دے کر کام کرنے دینا چاہئے اور ہر ایک کو اپنی دو سے تین سال کی مدت مکمل کرنے دینی چاہئے جس سے افسر شاہی نسبتاً تسلی سے کام کرے گی اور کارکردگی یقیناً بہتر ہو گی۔ آئے روز کے بلاوجہ تبادلوں سے اور پہلے سے نیب سے خوف زدہ افسرشاہی کی کارکردگی حکومت سپورٹ کے بغیر کبھی کوئی بہتر کارکردگی نہیں دکھا سکتی۔افسر شاہی کے جن جن افسران کا ’’کلا‘‘مضبوط ہے وہ پرسکون طریقے سے کام کر رہے ہیں اور ان کی کارکردگی بھی قدرے بہتر ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن)کی قیادت کی مشکلات میں کمی کی بجائے اب اضافہ ہونا شروع ہو گیا ہے۔میاں نواز شریف جو علاج کے لئے حکومتی اجازت سے لندن گئے ہوئے ہیں ان کی اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے واپسی کی طلبی کے بعد صورتحال تبدیل ہو رہی ہے اور اگر میاں نواز شریف واپس وطن آتے ہیں تو انہیں قانون کا سامنا کرنا پڑے گا جبکہ میاں شہباز شریف اور مریم نواز کے خلاف بھی مزید کیسز بننے جا رہے ہیں اور شریف فیملی کے خلاف دائرہ تنگ ہو رہا ہے۔
ایسے میں آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا بیانیہ اور پھر اس کا انعقاد کیا رخ اختیار کرتا ہے اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا مگر تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کو ایک طرف یقین بھی ہے کہ ماضی میں ایک دوسرے سے بری طرح سے دست وگریبان رہنے والی سیاسی جماعتیں اور ان کا اتحاد اس کےلئے کوئی ہوگا جبکہ دوسری طرح وہ دبائو میں بھی ہے کہ اگر ایسا ہو گیا تو پھر کیا ہو گا اور کہیں وہ حکومت کے لئے مشکلات پیدا نہ کر دیں اگرچہ اس آل پارٹیز کانفرنس سے کسی مضبوط اپوزیشن کے بننے کا امکان تو بہت کم ہے مگر پھر بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حکومت اس سے پریشان ہے پچھلے دنوں میں میاں شہباز شریف کی اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقاتیں درست سمت میں اقدام ہیں لیکن وہ کس حد تک دیگر جماعتوں کا اعتماد حاصل کرپاتے ہیں یہ اہم نقطہ ہو گا جس کے بعد اے پی سی کے انعقاد کی عملی شکل بن سکے گی اور پھر اس کے فیصلے بھی دوررس ہوسکتے ہیں۔
پنجاب میں جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کو اگر انتظامی اقدام قرار محض انتظامی طور پر نہیں دیکھا جانا چاہئے بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ حکومت نے جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کے نعرے کو سیاسی رنگ دیا ہے اس سے جنوبی پنجاب کے عوام کو کتنے فوائد اور سہولتیں ملیں گی اس کا حقیقی تعین تو آنے والا وقت ہی کرے گا مگر کچھ عوامل ایسے ہیں جو غورطلب ہیں اور ان پر دھیان دیا جانا ضروری ہے اگر چہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پولیس کا تقرر پہلے ہی کیا جا چکا تھا مگر چند روز قبل پنجاب ولز آف بزنس میں ترامیم کے بعد دس محکموں کےلئے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ میں علیحدہ سے سیکرٹریوں کا تقرر کر دیا گیا ہے جن میں سے آٹھ گریڈ 19کے افسر ہیں جب کہ ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ پنجاب کو سیکرٹری داخلہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا اضافی چارج اور سیکرٹری قانون پنجاب کو سیکرٹری جنوب پنجاب سیکرٹریٹ کا اضافی چارج دیا گیا ہے اس کا یقیناً سیاسی فائدہ تو ضرور ہوگا۔
حکومت کو جنوبی پنجاب کے عوام کے مسائل اور معاملات کو مقامی طورپر حل کرنے کےلئے اس مسئلہ کا حل آئینی طور پر کرنا چاہئے تھالیکن اسے انتظامی طور پر حل کرنے کی کوشش کی گئی جس سے مسائل موثو انداز میں حل ہونے کی بجائے مزید پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ میں تعینات ہونے والے افسران کے اختیارات بھی محدود ہیں جس سے خاطر خواہ نتائج کا حصول مشکل ہے لہٰذا آئینی اور انتظامی امور کو اپنی اپنی جگہ پر رکھ کر دیکھنا چاہئے۔