• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موٹروے زیادتی کیس، جوڈیشل کمیشن کی درخواست پر سماعت

لاہور موٹر وے پر خاتون سے زیادتی کے واقعے سے متعلق جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کی درخواست پر ہائیکورٹ میں سماعت ہوئی ۔

لاہور ہائیکورٹ میں موٹروے زیادتی کیس میں جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کی درخواست پر لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس قاسم خان نے سماعت کی، اس دوران سی سی پی او لاہور عمرشیخ عدالت میں پیش ہوئے۔

دوران سماعت چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے سی سی پی او کے بیان پر اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ لاہور موٹروے پرخاتون زیادتی کیس میں سی سی پی او نے وہ جملہ بولا جس پر پوری کابینہ کو معافی مانگنی چاہیے ۔

چیف جسٹس کی جانب سے سی سی پی او لاہور سے استفسار کیا گیا  کہ کمیٹی کی رپورٹ 13ستمبرکو سامنے آجانی چاہیے تھی، اس مقدمے کی تفتیش کے کیا حالات ہیں، چیف جسٹس قاسم خان کی نے حکم دیا کہ کمیٹی کی رپورٹ فوری منگوائیں۔

دوران سماعت لاہور ہائیکورٹ میں موجود سی سی پی او لاہور کی جانب سے اپنے بیان پر معافی مانگتے ہوئے کہا گیا کہ مجھے ایسا بیان نہیں دینا چاہیے تھا، میں نے بزرگ اور باپ کی حیثیت سے بات کی تھی، سی سی پی او کا اپنے مؤقف میں کہنا تھا کہ کیس ٹریس ہوگیا ہے اوردو تین دن میں یہ کیس حل ہوجائے گا۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ قاسم خان نے ریمارکس میں کہا کہ قانون کی حکمرانی اس طرح قائم نہیں ہوتی، امن وامان کی صورت حال یہ ہوگئی سڑکوں پر فائرنگ ہوتی ہے، معاشرہ رول آف لا کے بغیر نہیں چل سکتا، کابینہ فیصلہ کرتی ہےکہ پولیس کواب کیسے کام کرنا ہے، تفتیشی کمیٹی میں ماہرلوگ شامل کیے جاتے تاکہ شفاف تفتیش ہوسکتی۔

چیف جسٹس قاسم خان نے مزید کہا کہ جس شخص کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے اسے بتایا جائے کہ اُس نے کیا خلاف ورزی کی ہے، اگر یہاں یہ حال ہوگا تو جن لوگوں کے مقدمات عدالتوں میں جائیں گے وہاں کیا صورت حال ہوگی، یہ گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے والی بات ہے۔

سی سی پی او لاہور کی جانب سے عدالت کو مزید بتایا گیا کہ پولیس 20 منٹ میں جائے وقوعہ پر پہنچ گئی تھی جس پر چیف جسٹس قاسم خان نے کہا کہ یہ کارنامہ بھی آپ سے پوچھیں گے آپ تسلی رکھیں، موٹروے ہیلپ لائن پررابطہ کرنے پر خاتون کو کہا گیا آپ ہائی وے سےرابطہ کریں، ہائی وے والوں نے کہا پولیس سے رابطہ کریں۔

جس پر سی سی پی او لاہور کا کہنا تھا کہ میں موٹروے میں بھی خدمات انجام دیتا رہا ہوں، بد قسمتی سے موٹروے پر سیکیورٹی نہیں تھی، جس مقام پر یہ واقعہ پیش آیا وہاں پولیس تعنیات نہیں تھی، پچھلے کچھ سالوں سے زیادہ موٹرویز بنی ہیں اس کے لیے ہمارے پاس وسائل اور نفری کم ہے۔

تازہ ترین