• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:طارق محمودالحسن۔۔۔لندن
موٹیویشنل اسپیکنگ ایک ایسا شعبہ ہے جو گزشتہ چند سال میں پاکستان کے نوجوانوں میں خاصی مقبولیت اختیار کر چکا ہے جس کی بنیادی وجہ سینکڑوں کے مجمع کے سامنے بول کر عزت، شہرت اور داد سمیٹنے کے ساتھ ساتھ لاکھوں میں معاوضہ بھی ملتا ہے۔ ایک نامور موٹیویشنل سپیکر کونجی، سرکاری، غیر سرکاری اور تعلیمی اداروں میں مدعو کیا جاتا ہے اور کسی ایک موضوع پر چند گھنٹے بول کر وہ ایک معقول ڈاکٹر، انجینئر اور دیگر پروفیشنلز کی پورے مہینے کی تنخوا ہ سے زائد پیسے کما لیتا ہے۔ موٹیویشنل اسپیکنگ کے جدید ماڈل کی داغ بیل تقریبا آج سے سو سال قبل ڈیل کارنیگی نامی امریکی شہری نے ڈالی، جب زندگی کے کچھ نا خوشگوار اتفاقات کی وجہ سے 1912 میں اسٹوڈنٹس کو پبلک سپیکنگ سیکھانا شروع کی، جو تھوڑے ہی عرصے میں خاصی مقبول ہو گئی۔ 1913 میں بزنس والے افراد کے لیے پبلک سپیکنگ کے عنوان پر ایک کتاب لکھ ڈالی، جس سے موٹیوشنل اسپیکنگ کے ایک ایسے شاندار کیرئیر کا آغاز ہوا، جو 1955 میں اس کی وفات تک جاری رہا۔ آج سو سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد موٹیویشنل اسپیکنگ اور ٹریننگ انڈسٹری امریکہ میں تقریبا سالانہ دو ارب ڈالر مالیت کی انڈسٹری بن چکی ہے۔ موازنہ کے لئے اتنا سمجھ لیں کہ پورے پاکستان کا سالانہ تعلیمی بجٹ 0.5 ارب ڈالر سے بی کم ہوتا ہے۔ بعد ازاں بہت سے نامور موٹیویشنل اسپیکر اس بزنس کو امریکہ سمیت پوری دنیا میں فروغ دیتے رہے،جن میں جم رون، زگ زیگلر، برائین ٹریسی اور یس براؤن سرفہرست رہے۔موٹیویشنل اسپیکنگ کے حوالے سے ڈھیر ساری کتابیں بھی لکھی گئیں، جن کا اردو سمیت دنیا بھر میں 50 سے زائد زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ جدید موٹیویشنل اسپیکنگ بزنس ماڈل کو اپنے موجودہ مقام پر پہنچانے میں گزشتہ تیس سال میں جس شخص نے سب سے کلیدی کردار ادا کیا ہے اسے موٹیویشنل اسپیکنگ کی دنیا سے واقفیت رکھنے والے لوگ ٹونی رابنز کے نام سے جانتے ہیں۔ ایک مؤثر موٹیویشنل اسپیکر ہونے کے لیے وسیع مطالع اور سوچ کی گہرائی کا ہونا بہت ضروری ہے۔ عام طور پر سامعین کا جوش و جذبہ ابھار کر انھیں کسی کام کرنے کی طرف مائل کر لینا موٹیویشنل اسپیکنگ تصور کیا جاتا ہے۔پاکستان میں1980کی دہائی کے آخر میں موٹیویشنل اسپیکنگ کے پہلے چند قدموں کے نشان ملتے ہیں۔ جدید طرز کی بزنس ٹریننگ اور موٹیویشنل اسپیکنگ کے سب سے پہلے بیج میاں غنی مرحوم نے بوئے، جنہیں پاکستان ٹریننگ انڈسٹری کے کچھ حلقوں میں ٹریننگ کا جناح بھی کہا جاتا ہے۔ میاں غنی پاکستان سوسائٹی فار ٹریننگ این ڈویلپمنٹ (PSTD) کے بانی بھی ہیں جو اپنی طرز کا پہلا ادارہ تھا اور آج بھی ایک فعال ادارے کے طور پر کام کر رہا ہے۔ میاں غنی کے ہم نواؤں میں ایک اور قابل ذکر نام عبدالواحد خان مرحوم کا ہے، جن کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ 1984 میں اولمپک گولڈ میڈل جیتنے والی پاکستانی ہاکی ٹیم کے کوچ تھے۔ عبدالواحد نے بھی پرائیویٹ سیکٹر میں بحثیت موٹیویشنل سپیکر اور ٹرینر کچھ عرصہ کام کیا، لیکن اس دور میں موٹیویشنل سپیکنگ کا دائرہ اختیار ایک مخصوص طبقے تک محدود تھا اور زیادہ لوگوں کو اس سلسلے میں آگاہی نہ ہونے کے برابر تھی۔ پاکستان ٹریننگ اور موٹیویشنل سپیکنگ انڈسٹری کے لئے 1991کا سال بہت اہمیت رکھتا ہے۔ جب کامران رضوی برطانیہ میں بیس سال گزارنے کے بعد کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر پاکستان واپس لوٹ آئے تو موٹیویشنل اسپیکنگ اور ٹریننگ انڈسٹری کا وہ باب شروع ہوا جس پر آج بھی تعمیراتی کام جاری ہے۔ یہ پہلا موقع تھا جب ٹریننگ اور ڈویلپمنٹ مخصوص محفلوں سے نکل کر عام ہونا شروع ہوئی۔ سن 1990 کی دہائی میں میڈیا اور کانفرنسوں کا رواج شروع ہوا، سکول، کالجز اور دیگر پلیٹ فارمز سے موٹیویشنل اسپیکنگ اور ٹریننگ پروگرامز کا انعقاد کیا جانے لگا۔ اس سلسلے میں فیض سیال، عمر خان، سینسئی، فلپ لال، مزار بیگ، نسیم ظفر اقبال، میکس بابری، رمیز اللہ والا مرحوم، ندیم چوہان مرحوم اور سرمد طارق مرحوم نے کئ برس تک موٹیویشنل اسپیکنگ کے شعبے کو نکھارنے، عوام میں اس کی افادیت کی آگاہی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کارپوریٹ سیکٹر میں موٹیویشنل اسپیکنگ کی جڑیں مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ امریکن مینجمنٹ ایسوسی ایشن نے 1995 میں ٹریننگ اینڈ ڈویلپمنٹ سیکٹر میں داخل ہونے کےغرض سے پاکستان میں اپنا پہلا دفتر کھولا جو دو سے تین برس تک پاکستان میں کام کرتا رہا۔ یہ ابھرتی ہوئی ٹریننگ انڈسٹری کے لئے ایک اہم موڑ ثابت ہوا کیونکہ امریکن مینجمنٹ ایسوسی ایشن کے اس اقدام سے متاثر ہو کر لمز اور آئی بی اے جیسے تعلیمی اداروں نے اپنے ایگزیکٹو پروگرام شروع کر دیے۔ 1995 میں نے ہی پاکستان کے پہلے ٹرینرز ریسورس گروپ کی بنیاد رکھی گئی جو موٹیویشنل اسپیکنگ کو ایک جامع پروفیشن کا درجہ دینے کی طرف اہم قدم تھا۔ اس کے بانیوں میں اظہراقبال میر مرحوم، عالم ہیلی پوک، جمیل جنجوعہ، عائشہ چوہدری، سید نصرت علی اور کامران رضوی شامل تھے۔ گزشتہ 25 برس سے ہر مہینے کے آخری جمعرات والے دن ٹرینر ریسورس گروپ کی میٹنگ کا انعقاد کیا جاتا ہے، جس کا مقصد ٹریننگ انڈسٹری کے لیے بہترین پریکٹسز کو طے کر کے دیگر ٹرینرز اور آرگنائزیشنز تک پہنچانا ہے۔ 1990 کی دہائی میں ضیا محی الدین ، جاوید جبار اور معین اختر مرحوم اپنے اپنے شعبے میں شہرت کی بلندیوں کو چھونے کے ساتھ ساتھ معروف سپیکر ز بھی تصور کیئے جاتے تھے، مگر وہ محفلیں زیادہ تر ثقافت، تاریخ، حقائق، کامیڈی اور مزاح کے گرد گھومتی تھیں۔ ان حضرات کو خالص موٹیویشنل سپیکر تصور کرنا درست نہیں ہوگا۔ اکیسویں صدی پاکستان ٹریننگ انڈسٹری کیلئے نیا دور لے کر آئی، جب لوگ جوک در جوک ٹریننگ اور موٹیویشنل سپیکنگ کو کیریئر کے طور پر اپنانے لگے۔ اس حوالے سے سکول آف لیڈرشپ نے کلیدی کردار ادا کیا، جہاں سن 2002 میں پہلی مرتبہ لیڈرشپ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں پورے پاکستان سے ہر سال نوجوان شرکت کرتے ہیں۔ دور حاضر کا ایک معروف موٹیویشنل اسپیکر عمیر جالیا والا سکول آف لیڈرشپ کی ہی پیداوار ہے۔ اکیسویں صدی اپنے ساتھ عارف انیس، قیصر عباس، ولی زاہد فرہاد کرام علی، سہیل زندانی اور قاسم علی شاہ جیسے ٹرینرز اور موٹیویشنل سپیکرز لے کر آئی۔ آج اپنے اپنے شعبوں میں اوج کمال تک پہنچنے والے افراد بھی ایک کارآمد موٹیویشنل اسپیکر کا کردار بخوبی نبھا رہے ہیں۔ جن میں دین، تعلیم، بزنس این جی اوز اور انٹرٹینمنٹ سے تعلق رکھنے والے بااثر لوگ بھی شامل ہیں۔ اگر ہم نظر دوڑائیں تو ان ناموں میں مولانا طارق جمیل، جاوید چوہدری، موسی رحمان، سلیم غوری، ڈاکٹر صداقت علی، عمر عرفان مصطفی، رضا پیر بھائی، جسٹس ناصرہ اقبال اور ابرار الحق سرفہرست نظر آئیں گے۔ پاکستان اور اسلام کی تاریخ، ثقافت اور روح کو آج کے جدید میڈیم کے ذریعے نوجوانوں تک پہنچانے کا کریڈٹ موٹیویشنل سپیکرز کو جاتا ہے۔ یہاں خاص طور پر قاسم علی شاہ اور عمیر جالیا والہ کا ذکر ضروری ہے۔ آج گھر بیٹھے اقبال کے پیغام کی سلیس اردو ہم تک پہنچ رہی ہے۔ آج شاید ہی کوئی ذی شعور پاکستانی ہو جو واصف علی واصف، اشفاق احمد، ممتاز مفتی، فیض احمد فیض اور حبیب غالب جیسے ناموں سے ناواقف ہو۔ شاید پہلی مرتبہ قائد اعظم کا پیغام ہمارے آج کے روزمرہ کے مسائل کے ساتھ نتھی کر کےہم تک پہنچایا جا رہا ہے۔ ماضی اور حال کا کوئی ایسا نامور پاکستانی نہیں ہے جس کی کامیابی اور اس کے پیچھے چھپا راز ہم تک آسان زبان میں نہ پہنچ پایا ہو۔ پھر چاہے ہم عبدالستار ایدھی کی بات کریں، جھانگیر خان، گل جی،عبدالقدیر خان یا پھر عمران خان۔ اب محنت کے بل بوتے پر کھڑے ہونے والے ہر قسم کے بزنس کی اندرونی کہانی کو بھی لوازمات کے ساتھ عام پاکستانی کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ یہ سب اور بھی بہت کچھ موٹیویشنل سپیکنگ اور موٹیویشنل سپیکرز کی بدولت ہی ممکن ہوپایا ہے۔ آج مارکیٹ میں موٹیویشنل سپیکرز کی تعداد ہزاروں میں پہنچ چکی ہے، مگر فعال موٹیویشنل سپیکرز کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔ پاکستان موٹیویشنل اسپیکنگ انڈسٹری کے چند ابھرتے ہوئے ناموں میں شیخ عاطف احمد، سدرہ اقبال، زیدان خان، حماد صحافی، علی احمد اعوان، منیبہ مزاری، بلال شیخ، مخدوم شہاب ادین، روشنا ظفر اور اسامہ گلزاری شامل ہیں۔ آنے والے سالوں میں موٹیویشنل اسپیکنگ اور ٹریننگ پاکستان میں سب سے تیزی سے پھیلنے والے شعبوں میں شمار ہوگا۔ ساتھ ہی موسمی موٹیویشنل سپیکرز کی دکان رفتہ رفتہ بند ہوتی جائے گی۔ 
تازہ ترین