اپوزیشن کی کثیر جماعتی کانفرنس بالآخر اب اتوار 20ستمبر کو زرداری ہاؤس اسلام آباد میں ہونے والی ہے لیکن خود اپوزیشن پارٹیوں نے بھی کوئی ایسی فضا نہیں بنائی کہ اس کے نتیجے میں حکومت کو کوئی بڑا چیلنج درپیش ہوگا. دیکھنا ہوگا کہ کیا وہ کوئی سرپرائز سامنے لاتے ہیں یا بس محدود احتجاج اور باتیں ہی باتیں۔
قائد حزب اختلاف میاں شہبازشریف نے حال ہی میں پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری سے ملاقات کی تو وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو ہٹانے کی کسی حکمت عملی پر اتفاق نہیں کرائے. عمران خاں کی حکومت نے اندرونی اور بیرونی مسائل اور اپوزیشن کے شور شرابے کے باوجود دوسال مکمل کرلئے ہیں اور اب تیسرا سال شروع ہوچکا ہے. بلاشبہ حکومت کا اپنا گھر بالکل ٹھیک ٹھاک نہیں ہے لیکن اپوزیشن کا تو اس سے بھی برا حال ہے. شہباز شریف نے آصف زرداری سے ملنے سے پہلے اینکرز اور صحافیوں سے بھی کراچی کی صورت حال پر بات چیت کی۔
اس موقع پر میں نے ان سے پوچھا کہ آصف زرداری سے ملاقات سے وہ کیا توقعات رکھتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا ، میں ان کی خیریت معلوم کرنے آیا ہوں لیکن جب سیاست دان ملتے ہیں تو سیاست پر بھی لازما" بات ہوتی ہے. میرا خیال ہے کہ وہ نواز شریف کے کہنے پر ان سے ملے جو پی پی لیڈر سے اختلاف ختم کرنا چاہتے ہیں. خواجہ محمد آصف سمیت بعض لیڈر ان کے ساتھ نہیں تھے اور احسن اقبال اور مریم اورنگ زیب ساتھ تھیں. اپوزیشن اس لئےکمزور نظر آتی ہے کہ ایک تو اس میں اگر، مگر اور آئندہ لائحہ عمل پر اختلافات بہت ہیں اور دوسرے یہ نہیں طے ہو پارہا کہ مکمل احتجاجی پروگرام بنانا ہے یا احتجاج پارلیمنٹ تک محدود رکھنا ہے. سوائے مولانا فضل الرحمٰن کے سڑکوں پر احتجاج کوئی بھی نہیں کرنا چاہتا البتہ حکومت نے کوئی شدید ردعمل ظاہر کیا تو غیر متوقع حالات بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔
بہت تاخیر سے ہونے والی دونوں لیڈروں کی اس ملاقات سے کچھ ٹھوس تو برآمد نہیں ہوا، سوائے اس کے کہ شہباز شریف آل پارٹیز یا ملٹی پارٹیز کانفرنس میں شرکت پر تیار ہوگئے اور ایک سال پہلے بننے والی رہبر کمیٹی نے کانفرنس کی تاریخ 20 ستمبر مقرر کردی. اس میں کوئی شک نہیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے سندھ اور پنجاب میں ووٹ بنک ہیں لیکن جب اسے سڑکوں پر حکومت کیلئے چیلنج بنانے کا معاملہ ہو تو ان کی کچھ کمزوریاں اور مسائل ہیں. عمران حکومت کی طرف سے سخت جوابی کارروائی کا بھی خدشہ ہے. شہباز زرداری ملاقات سے پہلے مولانا فضل الرحمٰن نے بھی اس سلسلے میں کچھ کوششیں کیں. انہوں نے ایک سے زیادہ بار نواز شریف سے فون پر بات کی. جس کے بعد کراچی ملاقات کی تیاری ہوئی۔
دونوں جماعتوں کے ایک دوسرے کے خلاف تحفظات ہیں، اعتماد کی کمی ابھی تک برقرار ہے لیکن انہوں نے حکومت کو پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ٹف ٹائم دینے پر اتفاق کیا. لیکن مشکلات موجود ہیں. دونوں نے ابھی تک اپنی دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت کو کسی ایجی ٹیشن، دھرنے یا لانگ مارچ کیلئے موبلائزیشن کی کوئی ہدایات جاری کی ہیں نہ اپنی پارٹیوں کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹیوں کے اجلاس بلائے ہیں نہ کوئی صوبائی ورکرز کنونشن. اس لئے ایسا نہیں لگتا کہ اے پی سی جلد کسی اسلام آباد دھرنے کی کال دے گی. یہ ہوسکتا ہے کہ وہ بڑے شہروں میں مشترکہ جلسوں کا پروگرام بنائیں. تاہم مولانا فضل الرحمٰن چاہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اگر حکومت کو چیلنج کرنے میں سنجیدہ ہیں تو وہ زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔
جہاں تک حکومت کا تعلق ہے وہ چاہتی ہے کہ نیب ہائی پروفائل کیسز کے سلسلے میں تیزی لائے اور زیر التواء ریفرنسز میں پیش رفت ہو. حکومت بلین ٹری جیسے کیسز کو توازن پیدا کرنے کے اقدام سمجھتی ہے. وزیراعظم عمران خاں چاہتے ہیں کہ آصف زرداری اور نواز شریف کیخلاف کیسز جلد انجام کو پہنچیں. پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں کے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات سے عمران خاں نے سبق سیکھا ہے اور بہتر تعلقات رکھے ہیں۔