• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(سابق وفاقی وزیر)

ملک میں ان دنوں صدارتی نظامِ حکومت کی بازگشت شدت سے سنائی دے رہی ہے۔ حکومت نے اس حوالے سے ابھی تک خاموشی اختیار کی ہوئی ہےمگر اپوزیشن جماعتیں یہ پروپیگنڈہ کررہی ہیں کہ ملک میں پارلیمانی نظام کی بساط لپیٹ کر صدارتی طرز حکومت لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ملک میں پارلیمانی جمہوریت کے حوالے سے عام شہریوں کے جذبات اب کچھ اچھے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ سیاستدانوں پر لگنے والے کرپشن کے الزامات اور سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک دوسرے کو بدعنوان قرار دے کر سڑکوں پر گھسیٹنے جیسے الفاظ کے استعمال سے صورتحال عام شہریوں کے لئے اچھی نہیں رہی، جس کی وجہ سے جمہوری نظام سے لوگوں کا اعتماد اٹھ رہا ہے۔ موجودہ صورتحال میں جبکہ مہنگائی،گرانی اور بےروزگاری اپنے عروج پر ہے، وفاقی اور صوبائی سطح پر شہریوں کو ریلیف دینے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے جا رہے ہیں۔ ملک میں صدارتی نظام ایوب خان کے دور میں آیا جب انہوں نے بی ڈی ممبرز کے نظام کے تحت ان سے ووٹ حاصل کرکے خود کو صدر بنایا، جنرل یحییٰ خان تین سال، جنرل ضیاء الحق 11سال اور جنرل پرویز مشرف 9سال ملک کے صدر رہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں جمہوری نظام کا آغاز کیا گیا اور محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بنایا گیا مگر وہ صدر کا اعتماد زیادہ عرصہ برقرار نہ رکھ سکے اور انہیں برطرف کردیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی میر ظفراللہ خان جمالی کو وزیراعظم کے عہدے سے ہٹایا گیا اس کے بعد کچھ عرصے چوہدری شجاعت حسین وزیراعظم بنے بعد میں یہ عہدہ شوکت عزیز کے نام رہا۔ برطانیہ میں ڈیڑھ سو سال سے پارلیمانی نظام جاری ساری ہے، فرانس میں جب پارلیمانی نظام ناکام ہوا تو جنرل ڈیگال نے ملک کا نظم و نسق سنبھالا وہاں آج بھی صدارتی نظام کامیابی سے جاری ہے، فرانس میں چین اور روس کی طرح وزیراعظم بھی ہیں مگر ان تمام ملکوں میں صدربہت مضبوط ہے، صدارتی نظام امریکا میں کامیابی سے جاری ہے، پاکستان میں 18ترمیم کے بعد صوبوں کو صوبائی خودمختاری دی گئی مگر بدقسمتی سے اس ترمیم سے وفاق صوبوں کے سامنے بےبس اور عدم استحکام سے دوچار ہو چکا ہے۔ جس کی سب سے بڑی مثال کورونا وائرس کے دوران صوبوں کی لیت و لعل تھی جس سے معیشت کو تباہ کن نقصان پہنچا ۔ جمہوری نظام میں کرپشن کینسر کی طرح پھیل رہا ہے موجودہ وزیراعظم نے 2018کے الیکشن سے قبل اپنی انتخابی تقاریر اور منشور میں کرپشن میں ملوث لوگوں کے خلاف جس کارروائی کا اعلان کیا تھا اور لوٹی ہوئی دولت واپس لانا کا جوخواب دکھایا تھا وہ ابھی تک پورا نہیں ہوا ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ پارلیمانی نظام صدارتی نظام سے بہتر ہے جس میں ملک کے لئے اچھے اور مثبت فیصلوں کے امکانات ہیں مگر لوگوں کی سوچ میں تبدیلی بھی آرہی ہے، پچھلے چند برسوں سے صوبوں کو ملنے والی صوبائی خودمختاری کے بعد ملک کے معاشی حب اور سب سے بڑے شہر کراچی کاجو حال ہوا ہے وہ حد درجہ افسوسناک ہے۔ حالیہ بارشوں نے اس شہر کو بربادی کے کنارے پر پہنچا دیا جس کی وجہ سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزیراعظم عمران خان کو براہِ راست کراچی آکر اس شہر کے لئے خصوصی پیکیج کا اعلان کرنا پڑا۔ بارش سے متاثرہ لوگوں کی امداد کے لئے افواجِ پاکستان کے جوانوں نے جو خدمات انجام دیں وہ قابلِ ستائش ہیں، دوسری جانب کراچی پیکیج پر سندھ اور وفاق کی بیان بازی اور بحث نے اس کو مذاق بنادیا ہے، کراچی ملک کی معاشی دوڑ میں اولین پوزیشن رکھتا ہے مگر بدقسمتی سے حکمرانوں نے اس شہر کو ہمیشہ نظر انداز کیا، مردم شماری میں اس کی آبادی کم رکھی گئی جس کی وجہ سے ملک کو سب سے زیادہ ریونیو دینے والے شہر کو ملک میں ہر سطح کے مالی ایوارڈ میں بھی کم رقم دی گئی جس کے باعث یہ شہر مسائل کا گڑھ بن گیا۔

دنیا بھر میں شہری حکومت کو سب سے زیادہ اختیارات دیے جاتے ہیںمگر ملک کے سب سے بڑے شہر میں صورتحال بالکل مختلف ہے، شہری حکومت چار سال تک اختیارات کا رونا روتی رہی مگر اس کے پاس جس قدر بھی اختیار تھا اتنا کام بھی دکھائی نہیں دیا، اب جبکہ کراچی کیلئے خصوصی پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ اسے ایک کمیٹی کے تحت استعمال کیا جائے، تاکہ اس میں کرپشن نہ ہو سکے۔ کورونا وبا سے چھ ماہ تک کاروبار شدید متاثر ہوا، پوری قوم بےروزگاری اور مہنگائی سے پریشان ہے اسلئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو فوری طور پر ملک بھر میں معاشی پیکیج کا اعلان کرنا ہوگا جس کے تحت گرانی پر قابو پایا جائے، ادویات، بجلی، گیس، پانی اور ٹیلی فون کے بلوں پر عائد ٹیکس ختم کئے جائیں، بچوں کے ڈبے کے دودھ کی قیمت میں بھی کمی کی جائے، بےروزگار نوجوانوں کے لئے خصوصی وظیفہ اسکیم سامنے لائی جائے، ملازمت کے نئے مواقع فراہم کئے جائیں، ان حالات میں حکومت اور اپوزیشن کو ایک پیج پر آکر ملک کی سلامتی اور بقا کے لئے حکمت عملی بنانا ہوگی۔

تازہ ترین