• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب پورے کرہ ارض کا درجہ حرارت تبدیل ہو چکا ہے جس کے نتیجے میں گلیشیرز پگھل رہے ہیں اور پینے کے پانی کے وسائل میں تیزی سے کمی آرہی ہے۔ دیکھا جائے تو اِن موسمی تبدیلیوں اور پانی کی قلت کے خطرے کی بابت ایک عشرے سےعالمی ماحولیاتی ادارے آگاہ کرتے رہے ہیں اور اسی خطرے کے پیش نظر کئی ممالک میں آبی ذخائر کے چھوٹے بڑے منصوبوں کی تعمیر کو اولیت دی جاتی رہی ہے لیکن اس باب میں وطن عزیز میں اب تک کوئی قابلِ ذکر کام نہیں ہوا۔ کئی عشروں قبل دو بڑے ڈیموں کی تعمیر کے بعد ہنوز کوئی بڑا آبی منصوبہ مکمل نہیں ہوا بلکہ کئی اہم آبی منصوبے سیاست کی نذر ہو گئے حالانکہ پاکستان تو موسمیاتی تغیر سے براہِ راست متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے جبکہ یہاں زیر زمین پانی کی سطح میں بھی مسلسل کمی آرہی ہے۔ اس وقت سب سے بڑے صوبے بلوچستان سمیت ملک کے کئی بڑے شہر پانی کی کمیابی کے مسئلے سے دوچار ہیں۔ یہ صورتحال نہایت تشویش ناک ہے اور فوری اقدامات کی متقاضی ہے۔ اچھی بات ہے کہ ایوانِ بالا کے حالیہ اجلاس میں پانی کی قلت کا مسئلہ بھی زیر غور آیا۔ ملک میں پانی کی قلت کو الارمنگ قرار دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ 1951میں پاکستان میں پانی کی فی کس دستیابی 5260کیوبک میٹر سالانہ تھی جو کم ہو کر آج ایک ہزار کیوبک میٹر سے بھی کم ہو گئی ہے۔ سینیٹ میں وقفہ سوالات کے دوران وزیر مملکت علی خان نے سینیٹر میاں محمد عتیق شیخ کے سوال کے تحریری جواب میں بتایا کہ ملک میں پانی کی مسلسل قلت پیدا ہوتی جا رہی ہے جس پر ایوان میں بحث ہونی چاہئے۔ اس وقت قلت آب کا مسئلہ جس طرح گمبھیر صورت اختیار کرتا جارہا ہے ایسے میں ہر شہر و علاقے میں کم لاگت اور چھوٹے آبی ذخیروں کی تعمیر کو اولیت دینی چاہئے جہاں بارش کے پانی کو محفوظ بنایا جا سکے اسی طرح پانی کی قلت پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

تازہ ترین