• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

یوسف رضا گیلانی کو انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے؟

موٹروے کا سانحہ معاشرے میں بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کو مزید بڑھا گیا ہے اس واقعہ کی وجہ سے پورے ملک میں جہاں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی، وہیں خاص طور پر خواتین نے ملک بھر کی طرح جنوبی پنجاب کے مختلف شہروں میں شدید احتجاج کیا ،اگرچہ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے کہ جس میں ایک خاتون کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے، ایسے واقعات کی فہرست تو بہت طویل ہے ،مگر جس انداز سے یہ ایک محفوظ مقام پر پر یا یوں کہنا چاہیے کہ موٹروے جیسی ایک گزرگاہ پر کہ جہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ سیکیورٹی اور محفوظ سفر کے تمام تر انتظامات مہیا ہیں، وہاں اس قسم کی گھناؤنی واردات اپنے گہرے اثرات چھوڑ گئی ہے ،پولیس اس معاملے کو حل بھی کر لے گی یا شاید کرچکی ہوگی، مگر اس کے اثرات کا جو دائرہ ہےوہ بہت دور تک پھیل گیا ہے ، جس قسم کی وارداتیں آئے روز ہورہی ہیں اور معصوم بچیوں سمیت خواتین کو جس طرح بربریت کا نشانہ بنایا جارہا ہے وہ ہمارے معاشرے میں در آنے والی لاقانونیت کی اس لہر کو ظاہر کرتی ہے ،جو قانونی کمزوری، انصاف کی بے توقیری اور اداروں کے مقابلے میں مجرموں کی بے خوفی سے جنم لیتی ہے۔ 

اس انسانیت سوز واقعہ کے بعد ملک کی سیاسی قیادت نے یک زباں ہو کر نہ صرف اس کی مذمت کی بلکہ یہ مطالبہ بھی کیا کہ اس کے مجرموں کو ایسی کڑی سزا دی جائے کہ جو آنے والے دنوں کے لئے عبرت کے گہرے نقوش چھوڑ جائے، اس وقت یہ ضرورت بھی انتہائی شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے کہ ایسے گھناؤنے جرائم کے خلاف موثر قانون سازی ہونی چاہیے، ہمارا روایتی قانون شاید ایسے مجرموں کو سزائیں دینے سے قاصر ہے، جو بڑے سے بڑا جرم کرنے کے باوجود قانون کی گرفت میں میں آبھی جائیں ، تو کچھ عرصہ بات پھر قانونی موشگافیوں کا سہارا لے کر جیل سے باہر آ جاتے ہیں اور اپنا مجرمانہ سفر پہلے سے زیادہ بے خوفی کے ساتھ جاری رکھتے ہیں۔ 

جب قصور کا زینب قتل کیس سامنے آیا تو قوم کے اندر اس طرح کی ایک جذباتی لہر پیدا ہوئی، تو شہر شہر مظاہرے ہوئے تھے جن کا اتنا اثر ہوا کہ زینب کے قاتل کو فوری سماعت کے بعد تختہ دار پر لٹکا دیا گیا، لیکن اس ضمن میں جو قانون سازی کی جانی چاہیے تھی وہ نہ کی جاسکی، سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اتنی سنگین جرائم کے مجرموں کو بھی سزا دینے کے لیے کئی برس لگ جاتے ہیں وہ ضمانتوں پر رہا ہو کر کر مقتول اور متاثرہ کے ورثہ پر دباؤ ڈال کے صلح پر مجبور کر دیتے ہیں یا پھر وہ ضمانت پر رہائی ملنے کے بعد روپوش ہو جاتے ہیں پولیس انہیں اشتہاری قرار دے کر خاموش ہو کر بیٹھ جاتی ہے، تا وقتیکہ وہ کسی نئی واردات کا ارتکاب نہ کرلیں۔ 

اس صورتحال نے معاشرے میں جہاں درندہ صفت ذہنیت رکھنے والے مجرموں کی حوصلہ افزائی کی ہے وہیں عوام کے اندر بچوں اور خواتین کے حوالے سے عدم تحفظ کا احساس بڑھ گیا ہے، بعض رہنماؤں نے موٹر وے پر پیش آنے والے واقعہ کو بنیاد بنا کر وزیراعظم اور وزیراعلی پنجاب سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا،مخدوم جاوید ہاشمی جیسے سینئر سیاسی رہنما نے بھی اسی قسم کے مطالبات دہرائے، امید کی جانی چاہیے کہ قوم کے جذبات کو مدنظر رکھ کر ہماری سیاسی قیادت اتفاق اور اتحاد سے دور رس فیصلہ کرے گی ۔

سر جوڑ کر تو پیپلز پارٹی کی قیادت بھی بیٹھ گئی ہے کیونکہ آصف علی زرداری کے ساتھ سید یوسف رضا گیلانی پر بھی فرد جرم عائد کر دی گئی ہے اور توشہ خانہ کیس میں انہیں باقاعدہ ملزم کے طور پر احتساب کا سامنا ہے ،یوسف رضا گیلانی کے خلاف نیب کے اس ایکشن پر جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کاگہرا ردعمل سامنے آیا ہے اور اس فیصلہ کو نیب کی صریحاً سیاسی انتقام کی کارروائی قراردیا گیا ہے ،پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس سے ملتا جلتا کیس سابق صدر پرویز مشرف پر بھی بنتا ہے ور وہ اس بات کا اعتراف بھی کر چکے ہیں کہ انہوںنے سعودی عرب سےبطور صدرمملکت پیسے لئے تھے مگر ان کے خلاف نیب ایکشن میں نہیں آیا، جبکہ سید یوسف رضا گیلانی کی تمام تر وضاحتیں اور صفائیاں پس پشت ڈال کر انہیں توشہ خانہ کیس میں بطور ملزم نامزد کردیا گیا ہے۔ 

پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے صدر اور سابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود، سینئر نائب صدر خواجہ رضوان عالم اور دیگر رہنماؤں نے سید یوسف رضا گیلانی کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا ہے کہ شروع دن سے ہی نیب انہیں مختلف جھوٹے مقدمات میں ملوث کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے ، تاکہ پیپلز پارٹی پر دباؤ بڑھایا جا سکے، یہ سب کچھ حکومت کے ایما ء پر کیا جا رہا ہے جس کا مقصد آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی جیسے پارٹی کے سینئر ترین رہنماؤں کو دباؤ میں لا کراٹھارویں ترمیم کو ختم کرنے پر مجبور کرنا ہے ،لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت نے ہمیشہ آمرانہ ہتھکنڈوں کا مقابلہ کیا ہے اور اس بار بھی ان کا عزم اور مصمم ارادہ ایسی انتقامی کارروائیوں کے سامنے دیوار ثابت ہوگا۔ ادھر جب سے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کی خبریں گردش کرنے لگی ہیں، سیاست کے ٹھہرے ہوئے پانی میں ایک واضح ارتعاش نظر آتا ہے۔ 

مختلف سیاسی ڈیرے آباد ہو رہے ہیں ،ارکان اسمبلی اپنے حلقوں میں بلدیاتی امیدواروں سے رابطے کر رہے ہیں، مسلم لیگ ن خاصی متحرک ہے کیونکہ یہ بلدیاتی انتخابات پنجاب میں اس کی کھوئی ہوئی گرفت کو واپس لا سکتے ہیں ،یاد رہے کہ جب بلدیاتی ادارے ختم کیے گئے تو ان میں چیئرمین و کونسلروں کی اکثریت کا تعلق مسلم لیگ ن سے تھا،پیپلز پارٹی بھی اس حوالے سے عوامی رابطوں کو تیز کر رہی ہے ،جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے تو وہ حکومت کی ناقص معاشی کارکردگی کی وجہ سے عوام کا ساتھ سامنا نہیں کر پا رہی۔

تازہ ترین
تازہ ترین