پاکستان کی سیاسی صورتحال کو اطمینان بخش تو قرار نہیں دیا جا سکتا تاہم یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ،حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ ایک پیج پر ہیں اپوزیشن کے خلاف حالات سخت ہو تے جا رہے ہیں ، لیکن اپوزیشن سمجھتی ہے کہ اے پی سی کے زریعے حکومت کو چلتا کریں گے۔ اپوزیشن کے پلیٹ فارم سے 20 ستمبر کی آل پارٹی کانفرنس کی تیاریاں جاری ہیں پاکستان پیپلز پارٹی اے پی سی کی میز بان ہو گی اور مہمانوں کو دعوت نامے بھیجنے کا عمل بھی اندرون خانہ جاری بتایا جا رہا ہے۔
آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد اور نتا ئج کے حوالے سے کو ئی خوش کن پیش بینی سامنے نہیں آ رہی ،اب تو لوگ نجی محفلوں میں بھی یہ کہتےہو ئے سنے جا رہے ہیں کہ حکومت کا رویہ تو حکومت والا نہیں مگر بد قسمتی سے اپوزیشن کا رویہ بھی اپوزیشن والا نہیں ہے،جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان تو پہلے دن ہی سے 2018ء کے قومی الیکشن کے نتائج ماننے کو تیار نہ تھے مگر پاکستان پیلز پارٹی اور (ن) لیگ نے حلف اٹھا کر ان کی ایک نہ چلنے دی،اپوزیشن بظا ہرتو اکٹھی تھی مگر عملاً ایسا نہ تھا اور چیئر مین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم -اعتماد کی ناکامی نے ان کے نفاق کو بے نقاب کر دیا ۔
آج تک اپوزیشن کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کوئی نتیجہ سامنے نہ لا سکی، صرف مخا لف ہی نہیں خود کوغیر جانبدار کہنے والے تجزیہ نگار بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ عمران خان کی قیادت میں بننے والی حکومت سے صر ف عوامی ہی نہیں، ادارہ جاتی تو قعات بھی پوری ہوتی نظر نہیں آ رہیں، پاکستان کی تمام سیا سی جما عتیںاور ادارے،دونوں 1973ء کے آئین پر چلنے کے عزم کا اظہار تو کرتے ہیں مگر عملاً ایسا نہیں ہوتا ،1973 کے بعد ملک میں دو مارشل لا ءلگ چکے ہیں جبکہ ایک بارعدلیہ کو پی سی او پر حلف نہ اٹھا نے کی پاداش میںفارغ بھی کر دیا گیا۔
اے پی سی بھی آئین کے تحفظ کی ایک کوشش ہے ،حکمران اپوزیشن کو نیب کے ذریعے سیدھا رکھنے کی کوشش کرتے ہیں جمہو ریت ،جمہوریت کا راگ تو تمام سیا سی جماعتیں الاپتی ہیں مگر عملا ً تمام سیاسی جما عتیں پولنگ کی بجا ئے نا مز دگیوں پر چل رہی ہیں ،قانون کی حکمرانی کی بات تو ہم ضرور کرتے ہیں مگر افلا طون کے اس فلسفے پر عمل پیراہیں افلا طون کہتا ہے کہ یہ دنیا کا -سب سے بڑا جھوٹ ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے ،فلاسفر کے بقول قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں کیڑے مکو ڑے تو پھنستے ہیں مگر بڑے جانور اس کو پھاڑ کر نکل جا تے ہیں ،لاہور راولپنڈی موٹروے کو سیالکوٹ موٹروے سے ملانے والی موٹروے پر گجر پورہ کے قریب فرانس سے بچوں سمیت آنے والی ماں سےذیادتی کے واقعے نے پاکستان کو ایک بار پھر پوری دنیا میں بد نام کر کے رکھ دیا ہے اور نہ صرف پاکستان کی گیا رہ کروڑ خواتین بلکہ تر قی یافتہ ممالک کی خوا تین نے بھی بچوں کے سامنے ماں کے تقدس کو پامال -کرنے والے افراد کو سر عام پھانسی دینےکا مطالبہ کر دیا ہے،اس واقعہ نے بھی پی ٹی آئی کی حکومت کی بد انتظا می کو بے نقاب کیا ہے اور آئی جی پنجاب ڈاکٹر شعیب دستگیر کو ہٹا کر عامر شیخ کو سی سی پی او لاہور مقرر کرنے کے فیصلے کو غلط قرار دیا ہے، جس نے ماں سے ذیادتی کے واقعے پر حکومت کے لیے مزیذ پریشانی پیدا کی۔
پاکستان کے مجموعی قر ضوں کے اعدادو شمار 224 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہے صرف گز شتہ دوبرسوں کے دوران قرضوں میں 11300 ارب روپے کا اضا فہ ہوا ہے جبکہ 5 ارب ڈالر سعودی عرب سے قرض لے کر ہم نے اپنے زر مبادلہ میں اضافہ کیا ہے اور یہ بھی سنے میں آیا ہےکہ چین سےایک ارب ڈالر مزید ادھار لے کر سعودی عرب کو واپس کر دیا ہے، اقتصادی ماہرین کا کہنا ہےکہ قانون کے مطابق پاکستان کا قرضہ جی ڈی پی کے لحا ظ سے 60 فیصد ہونا چاہیے لیکن پاکستان اس حد سے بہت آ گے جا چکا ہے اس وقت -پاکستان کا قرضہ جی ڈی پی کے لحا ظ سے 87 فیصد ہے۔
ماہرین کا کہنا ہےکہ قر ضوں میں اضا فے سے واجب الا دا قر ضوں میں 28 فیصد یا اڑھائی ارب روپے کا اضا فہ ہوگیا، قرضوں پر چلنے والے ملک کے سابق حکمران، سیاست دان ،ریٹائرڈ بیورو کریٹس اور ریٹائرڈ جرنیل اپنے اثاثے اور دولت اگر بیرون ملک رکھنا مجبوری سمجھتے ہیں تو موجودہ حکمرانوں کو اس دولت کی وطن وآپسی کے لیے کچھ تو کرنا ہو گا،ورنہ قوم سے معا فی مانگ کر اپنے بڑے بڑے بول واپس لینے پڑیں گے،5 اگست 2019 ء کو بھارت نے مقبو ضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کر کے مسلمانوں کا ناطقہ بند کر دیا اور دوسرے اضلاع سے ہندووں کو مقبوضہ کشمیر میں بسا کر مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا عمل جاری ہے ،بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا ،بھارت سے یو ں تو پاکستان کے کئی تنا زعے موجود ہیں مگر مقبو ضہ کشمیر ایک ایسا تنا زعہ ہے۔
جہاں گز شتہ برسوں سے کشمیری بھارت سے آزادی کے لیے اپنے خون کے نذانے پیش کر رہے ہیں ،پاکستان 1948ء اور 1965ء میں کشمیر کی آزادی کے لیے ہی دو جنگوں میں بھارت کی عددی بر تری کو تہ و بالا کر چکا ہے ،مسئلہ کشمیر حل نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان ایک عسکری سٹیٹ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور پاکستانی افواج اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن سے نبرد آزما ء ہونے کے لیے ہر وقت تیار رہتی ہیں چند روز قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس بات کا اظہار کیا کہ افواج پاکستان پوری قوت سے لیس ،چو کنہ اور با خبر ہے ہمیں نہی تو حا صل شدہ اسلحے کے امبار سے مرغوب کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ہم پر کوئی دھمکی اثر انداز ہو سکتی ہے۔
اسی موقع پر انہوں نے پاکستا نی قوم سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے، کوئی دشمن ہماری اس محبت کو شکست نہیں دے سکتا اسی طرح پاکستانی قوم کی پاکستان افواج سے محبت لازوال ہے ان کا اعتمادغیر متز لزل ہے میں ان تمام جذ بوں کو سلام کرتا ہوں ،آرمی چیف نے اس موقع پر قوم کو در پیش ایک چیلنج سے آگاہ کیا ،جس کو ففتھ جنریشن یا ہا ئبرڈ وار کا نام دیا اس وار کا مقصد پاکستان اور افواج پاکستان کو بد نام کر کے انتشار پھیلا نے کی سازش قرار دیا ،جنرل قمر جاوید با جوہ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ جس طرح گزشتہ 20 برس بڑی آزمائش سے گزرے ہیں ،قد رتی آفات کے علا وہ دہشت گردی اور شد ت پسند ی کے خلاف مسلح افواج نے اعصاب شکن جنگ لڑی اور بڑی قربانیوں کے ساتھ منزل کے قریب پہنچ گئے ہیں ہمیں اتحاد ،ایمان اور تنظیم کے اصولوں پر چلتے ہو ئے کام ،کام اور بس کام کو اپنانا ہو گا۔
پاکستا ن ساڑھے 22 کروڑ آبادی کا ملک ہے ،جس کی طویل ترین سر حد بھارت سے ملتی ہے ،مغرب میں افغا نستان ہے جہاں گزشتہ 43 برس سے امن و امان کی صورتحال موجود ہے ،افغا نستان کے بعد بلو چستان میں ایران کی سر حد بھی ملتی ہے ،افغا نستان اور ایران سے پاکستا ن کو کبھی کوئی خطرہ پیش نہیں آیا جبکہ آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر پورا سال بھا رتی فوج کے حملوں کا جواب دینا ایک مجبوری کی شکل اختیار کر چکا ہے۔