• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان میں خون ریزی کے خاتمے اور امن کے قیام کے لیے افغانی اِن دنوں ایک دوسرے سے بات چیت کر رہے ہیں۔قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے’’ انٹرا افغان مذاکرات‘‘میں اشرف غنی حکومت اور طالبان کے وفود شریک ہیں، جنھیں امریکا کی حمایت حاصل ہے۔ دنیا بھر نے اِس بات چیت کا خیر مقدم کیا ہے۔ پاکستان نے مذاکرات کی میز سجانے میں اہم ترین سہولت کار کا کردار ادا کیا، جس کی فریقین نے تعریف بھی کی۔ افتتاحی اجلاس سے امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ، جارج پومپیو، پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی، بھارتی وزیرِ خارجہ اور دیگر پڑوسی ممالک کے سفارت کاروں نے خطاب کیا۔ انٹرا افغان ڈائیلاگ کے پہلے اجلاس کی روداد کو یوں سمیٹا جا سکتا ہے کہ’’ سب نے افغانیوں سے کہا کہ اب جنگ بند اور ایک دوسرے کو مارنے کا سلسلہ روک دو۔ 

ماضی کو فراموش کرکے اپنے مُلک میں کوئی ایسا نظامِ حکم رانی وضع کرلو، جس میں سب مل جل کر رہ سکیں۔‘‘ تجزیہ کاروں کے مطابق، اب بال افغانیوں کے کورٹ میں ہے، چاہے وہ طالبان ہوں یا افغان حکومت۔ جو لوگ اشرف غنی یا طالبان کی پیٹھ ٹھونک رہے ہیں کہ اُنہوں نے کوئی بڑی کام یابی حاصل کر لی ہے، اُنہیں گزشتہ پچاس برس کے دَوران ہونے والے افغان شہریوں کے قتلِ عام، شہروں اور دیہات کی تباہی پر بھی نظر ڈال لینی چاہیے، جس نے افغانستان کو ایک کھنڈر یا قبرستان میں بدل دیا ہے۔

اِس طرح کے مذاکرات بہت پہلے ہوجاتے تو اچھا تھا، مگر خیر، اب بھی یہی کہا جاسکتا ہے کہ’’ دیر آید، درست آید۔‘‘ مذاکرات کے ایک اہم فریق، طالبان نے بھی گزشتہ نصف صدی میں بے گناہ عوام کی بربادی سے بہت کچھ سیکھا ہوگا اور یقیناً حکومت میں موجود افغان رہ نُماؤں نے بھی کہ اقتدار تو آنی جانی شئے ہے،کل مُلّا عمر تھے، پھر کرزئی اور اب اشرف غنی۔لیکن افغان عوام وہیں کے وہیں ہیں۔فریقین اپنے مطالبات اور اَنا کے خول سے باہر نکل کر یہ بھی دیکھ لیں کہ خانہ جنگی نے افغان شہریوں کا کیا حشر کیا ہے۔ جنہیں وہ اپنے بہن، بھائی کہتے ہیں اور جن کے لیے جنگیں لڑے جارہے ہیں، وہ کس کسم پُرسی میں جی رہے ہیں؟

’’افغان جنگ‘‘ یا’’ جہاد‘‘، جو بھی نام دے لیں، گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے، جس کے دَوران کئی اتار چڑھاؤ بھی آئے۔ 70 ء کے عشرے کے آخری دنوں میں سویت یونین اور مجاہدین برسرِ پیکار رہے، جسے پہلی افغان جنگ کہا جاتا ہے۔ پاکستان نے بھرپور طریقے سے مجاہدین کا ساتھ دیا، جب کہ امریکا، مغربی طاقتوں اور عرب دنیا نے بھی اُن کی پُشت پناہی کی۔ اس جنگ میں سویت یونین کو شکست ہوئی۔ گو کہ مخالف اتحاد کا ہر فریق یہی دعویٰ کرتا ہے کہ سویت یونین کی شکست میں اُس کا مرکزی کردار رہا، لیکن اس جنگ کا نتیجہ یہ نکلا کہ سویت یونین سُپر پاور سے ایک دیوالیہ روس میں سِمٹ گیا اور امریکا واحد عالمی سُپر پاور رہ گیا۔اُدھر یورپ میں کمیونزم کی بساط لپٹ گئی، بلکہ دنیا میں شاید ہی اُس کا کوئی نام لیوا بچا ہو۔ 

افغان جنگ کے بعد بھی جنیوا میں دوحہ طرز کے مذاکرات ہوئے، جس کے نتیجے میں’’ جنیوا معاہدہ‘‘ ہوا۔بعدازاں افغانستان میں حکومت بنانے کے لیے مذاکرات ہوئے، لیکن اُن کا اختتام ایک نہ ختم ہونے والی خانہ جنگی پر ہوا۔ ہر طرف خون ہی خون تھا۔اِتنے افغانی سویت یونین سے آزادی کی جنگ میں ہلاک نہیں ہوئے، جتنے افغان وار لارڈز کے درمیان ہونے والی خانہ جنگی میں مارے گئے۔ہر افغانی سردار، بادشاہ یا صدر بننے کا خواہش مند تھا کہ اُس کے دعوے کے مطابق وہی آزادی کا ہیرو تھا اور اُسی نے سب سے زیادہ قربانیاں دی تھیں۔امریکا وہاں سے واپس جاچُکا تھا اور سویت یونین ہار چُکا تھا۔ اس دَور میں پاکستان کسی نہ کسی طرح اپنے اثر ورسوخ کو افغان حکومتی عمل کے لیے استعمال کرتا رہا۔پھر مُلّا عُمر کے طالبان کا دَور آیا۔

اس کے ساتھ ہی القاعدہ افغانستان میں داخل ہوئی اور ہر طرف اُسامہ بن لادن کا شہرہ ہوا، جس کا کلائمیکس تو نائن الیون تھا، لیکن انجام نیٹو فورسز کے افغانستان پر قبضے کی شکل میں سامنے آیا۔اُسامہ بن لادن کو دس سال بعد امریکا نے ایک فوجی آپریشن میں ہلاک کردیا اور یوں القاعدہ کا باب بند کردیا گیا۔ افغان مجاہدین نے طالبان کا رُوپ دھار لیا، جو گزشتہ کئی برسوں سے ایک مزاحمتی جنگ لڑ رہے ہیں۔سویت یونین کے خلاف افغان جنگ کو مجاہدین’’ جہاد‘‘ کہتے تھے اور دوسری جنگ کو بھی، جو اب تک جاری ہے، طالبان جہاد کہتے ہیں، لیکن اس میں ہلاک ہونے والے تقریباً تمام ہی افغانی ہیں۔فرق اِتنا ہے کہ لڑائی کے ساتھ امریکا کی سرپرستی میں ایک سیاسی حکومت بھی کام کر رہی ہے۔ 

پہلی جنگ میں مجاہدین، پاکستان، عرب، امریکا اور سویت یونین فریق تھے۔اب دوسری جنگ میں چین، بھارت، ایران اور تُرکی جیسے طاقت وَر مُلک بھی شامل ہوچُکے ہیں۔لیکن بہرحال افغانستان کے امن عمل کو اِس مرحلے تک پہنچانے کا کریڈٹ امریکا ہی کو جاتا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسائل کے حل کے لیے جو دوسال میں تیزی دِکھائی، وہ اب اختتام کے قریب نظر آرہی ہے۔صدر ٹرمپ کی خواہش ہے کہ اُن کے دوسرے انتخاب سے قبل انٹرا افغان معاہدہ ہوجائے اور امریکی فوجیں افغانستان چھوڑ دیں۔

سوال یہ ہے کہ آخر طالبان اور افغان حکومت چاہتے کیا ہیں؟ دونوں ہی اقتدار اور طاقت کے دعوے دار ہیں۔ اگر یہ دونوں اپنے اپنے مطالبات میں کچھ لچک اور درمیانی راہ نکال لیں، تو افغانستان میں امن ہو جائے گا۔صدر اشرف غنی کی حکومت کی خواہش ہے کہ سردست جنگ بندی ہوجائے اور خون ریزی رُک جائے۔جب کہ طالبان کا کہنا ہے کہ خانہ جنگی کے پسِ پردہ عوامل ختم کیے جانے ضروری ہیں۔ غالباً اُن کا مطلب یہ ہے کہ جس اسلامی نظام کی وہ مُلّا عُمر کے دَور میں نمائندگی کرتے تھے، حکومت اُس کی کچھ شقیں قبول کرنے پر رضامند ہوجائے۔ فروری میں امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدہ ہوا، جس کے دو نکات پر عمل ہوچُکا ہے۔

اوّل طالبان قیدی رہا ہوچُکے ہیں۔ دوم، طالبان نے اِس اَمر کی یقین دہانی کروادی کہ کوئی دہشت گرد گروپ یا تنظیم اب افغان سرزمین استعمال نہیں کرسکے گی۔ مشرقِ وسطیٰ میں جو تباہی ہوئی، اُس کا سبب وہی جنگ جُو گروپس ہیں، جو مختلف علاقائی ممالک کی پراکسی کے طور پر قتلِ عام مچائے ہوئے ہیں۔ حکومتوں تک کو بے بس کر رکھا ہے۔ جہاں چاہتے ہیں، ’’آزادی‘‘ یا’’ مذہبی جنگ‘‘ کے نام پر فساد برپا کردیتے ہیں۔شام، عراق، لبنان، یمن سب ہی اُن کے نشانے پر ہیں، تو یہ یقین دہانی کوئی معمولی بات نہیں۔اقوامِ متحدہ کے مطابق، صرف شام میں گزشتہ نو سال میں پانچ لاکھ مسلمان شہری ہلاک اور ایک کروڑ سے زاید بے گھر ہوئے، جنہیں اِس وقت تُرکی، اُردن، عراق، شام، لبنان کی سرحدوں پر قائم مہاجر کیمپس میں رکھا گیا ہے، تو یقیناً طالبان اور افغان حکومت کی نظر میں بھی یہ سب کچھ ہوگا، اِس لیے کہ ان کیمپس میں افغان مہاجرین بھی موجود ہیں۔

افغانستان میں جس نوعیت کی تباہی وبربادی ہوئی ہے، اُس کی جلد بحالی اور آباد کاری کوئی ایک مُلک تو کیا، پوری دنیا مل کر بھی نہیں کر پائے گی۔پہلی اور دوسری افغان جنگ کے اثرات دو اعتبار سے مختلف ہیں۔سویت یونین کے انخلا کے بعد عرب ممالک، امریکا اور پاکستان میدان میں تھے، لیکن امریکا خطّے سے چلا گیا۔آج بھارت، چین، روس، تُرکی، وسط ایشیائی اور کئی دوسرے ممالک افغان امن عمل میں حصّہ لے رہے ہیں۔بھارت کے وزیرِ خارجہ نے افتتاحی اجلاس سے خطاب میں کہا کہ اُن کا مُلک افغانستان میں چار سو منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔

چین بھی پہلی بار افغان امن اور بحالی میں قدم قدم پر موجود ہے، جو 80 ء کے عشرے میں کہیں موجود نہ تھا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب افغان امن عمل میں اسٹیک ہولڈرز کی تعداد بڑھ گئی ہے اور ان میں سے زیادہ تر کا تعلق اِسی خطّے سے ہے۔اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دنیا میں اقتصادی محور بھی بدل چُکے ہیں۔صاف بات ہے، جس کے پاس سرمایہ اور مہارت (ٹیکنالوجی ) ہے، وہی افغانستان کی بحالی میں مدد کرسکتا ہے۔ جنگ میں تو صرف اسلحہ چاہیے، لیکن امن میں روزگار، تعلیم، علاج معالجے کی سہولتیں درکار ہوتی ہیں اور انہی سے حکومتوں کی کارکردگی ناپی جاتی ہے، بلکہ دوستوں اور حلیفوں کی ضرورت بھی اسی پیمانے پر ہوتی ہے۔ 

ویت نام کی مثال سامنے ہے۔اس نے امریکا سے جنگِ آزادی لڑی۔نفرت ایسی تھی کہ کسی مفاہمت کا سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا، لیکن بالآخر جنگ ختم ہوئی اور اب ویت نام جنوب مشرقی ایشیاء کی تیزی سے ترقّی کرنے والی اقتصادی قوّتوں میں شامل ہے اور وہ امریکا کا قریبی حلیف بھی ہے۔یاد رہے، گزشتہ سال شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ینگ اور صدر ٹرمپ کی دوسری سربراہ ملاقات کی میزبانی ویت نام نے کی۔

افغان رہنماؤں کا اصل امتحان اور آزمائش اب شروع ہوگی۔طالبان اور حکومت ابھی تک اپنے اپنے دائرے میں رہ کر کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ طالبان کے مطابق وہ افغان حکومت اور امریکا کے خلاف آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے۔جو سامنے آیا، اُسے مار دیا یا تباہ کردیا، کوئی جواب دہی نہیں۔اِسی طرح حکومت امریکا کی بنائی ہوئی تھی اور وہی اُسے چلا رہا تھا، لہٰذا اُس کی کوئی خاص ذمّے داریاں نہیں تھیں۔اب انٹرا افغان ڈائیلاگ کے بعد جب مفاہمت ہو گی اور صحیح معنوں میں افغان حکومت وجود میں آئے گی، تو اُسے ہر قدم پر اپنے عوام اور دنیا کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا۔مُلک چلانا اور وہ بھی افغانستان جیسا تباہ حال مُلک، آسان کام نہیں۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کے لیے دونوں فریقین کو تیاری کر لینی چاہیے۔ ایک صدی کے دوران ویت نام جیسی آزادی کی جنگ شاید ہی کسی نے لڑی ہو، لیکن اس کے بعد اپنے عوام کی خاطر اُسے جو سمجھوتے کرنے پڑے، وہی اُس کی ترقّی کا سب بنے۔ اس مرحلے پر پڑوسی ممالک کو کیا کرنا ہوگا؟ اور وہ کس طرح افغانستان کی تعمیر وترقّی ممکن بنا سکتے ہیں؟اُنھیں امداد کے علاوہ اِس اَمر کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ افغانستان ہر طرح کی بیرونی مداخلت سے پاک رہے۔ افغانی اپنا مُلک خود چلائیں۔یہی ان سے محبّت اور ہم دردی کا تقاضا ہے۔پاکستان وہ مُلک ہے، جو افغان جہاد، پھر القاعدہ اور طالبان سرگرمیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ آج بھی پاک سرزمین پر چالیس لاکھ کے قریب افغان مہاجرین موجود ہیں، جن کی واپسی کا عمل اب شروع ہونا چاہیے۔

دریں اثنا، طالبان کو روس، چین اور ایران کے قریب جانے سے بہت سے تجربات حاصل ہوئے ہوں گے۔اُن کے پہلے دَور کی طرح کی حکومت چین کے لیے قابلِ قبول ہوگی، نہ روس کے لیے۔اِسی طرح ایران اور وسط ایشیائی ممالک کے لیے بھی اُنھیں تعاون فراہم کرنا بہت مشکل ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ طالبان کو کوئی ایسی راہ نکالنی پڑے گی، جس میں افغان عوام اور پڑوسی ممالک بھی مطمئن ہوسکیں۔امریکا تو خطّے سے جارہا ہے، اب افغانوں ہی کو علاقے میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔جنگ کی وجہ سے بڑی تعداد میں افغانیوں کو بیرونِ مُلک جانے کا موقع ملا،جس دَوران اُنہوں نے اپنے مُلک اور باقی دنیا کے معاشروں میں موازنہ بھی کیا ہوگا۔ ان سب باتوں کے اثرات نئے افغانستان کی تشکیل میں اہم ثابت ہوں گے۔

عالمی سطح پر ایک اور اہم پیش رفت یہ ہو رہی ہے کہ عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔یو اے ای کے بعد بحرین اور اسرائیل میں بھی سفارتی تعلقات قائم ہوگئے ہیں۔22 عرب ممالک پر مشتمل عرب لیگ نے اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے پر عرب ممالک کی مذمّت سے انکار کر دیا۔دوسرے الفاظ میں اس کا موقف کچھ یہ نظر آتا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے فلسطین کے معاملے کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ ممالک فلسطین پر اپنے موقف سے دست بردار نہیں ہوئے، وہ اب بھی دو ریاستی حل کے لیے کوشاں ہیں، لیکن تیل کی گرتی قیمتوں اور کورونا کی تباہ کاری سے عرب ممالک کے لیے جو چیلنجز سامنے آئے، اس میں اپنے عوامی مفادات اوّلیت اختیار کرگئے ہیں اور اِس سارے معاملے کو اِسی پس منظر میں دیکھنا ہوگا۔مراکش بھی، جو افریقا کا اہم مسلم مُلک ہے، اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کی راہ پر ہے۔

یہی وہ مُلک ہے، جہاں کے بربروں نے پہلی صدی میں اسپین فتح کیا۔ بعدازاں وہاں اُموی حکومت قائم ہوئی، جو سات سو سال جاری رہی۔ اسے مسلم دنیا اور یورپ کا سنہری دَور گردانا جاتا ہے۔اس میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ عربوں سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی اب پھل دے رہی ہے۔ اس پالیسی پر تنقید تو کی جاسکتی ہے، لیکن یہ ہے کام یاب۔عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے پر سب سے زیادہ تنقید تُرکی اور ایران نے کی۔گویا 57 مسلم مُمالک میں سے صرف دو مُلک اسرائیل سے تعلقات پر برہم ہیں۔ تُرکی کے خود بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہیں، حالاں کہ صدر اردوان اسرائیل کے سخت مخالف ہیں۔تاہم تُرکی کی پالیسیز عرب دنیا پر اب کچھ زیادہ اثرانداز نہیں ہوتیں۔ 

اس کا کردارمحدود ہوتا جارہا ہے۔صدر اردوان شام تنازعے میں صدر اسد کا موقف تسلیم کرنے پر تیار نہ تھے اور ایران کے زبردست ناقد رہے، لیکن اب وہ اسد حکومت سے بات کر رہے ہیں۔ ایران، امریکا اور اسرائیل کا دشمن ہے، لیکن جب اپنے مفادات کے تحت نیوکلیر ڈیل کا معاملہ آیا، تو اس نے غیرمعمولی بلکہ حیرت انگیز لچک دِکھائی اور اوباما حکومت سے ڈیل کر کے اپنے چالیس ارب ڈالرز کے منجمد اثاثے حاصل کر لیے۔نیز، اس نے یورپ سے بھی اقتصادی روابط قائم کیے، جو اسرائیل کے دوست ہیں۔تہران میں تو اس کام یابی پر جشن بھی منایا گیا۔ اِن دنوں ایران کی اقتصادی صُورتِ حال بہت ابتر ہے۔ 

اسی لیے اس نے آئی ایم ایف سے چار ارب ڈالرز قرضے کی درخواست کی ہے۔درحقیقت عرب، ایران اور عرب، تُرکی تعلقات میں اعتماد کا بے حد فقدان ہے۔وہ شاید مسلم دنیا کی کسی خود ساختہ لیڈرشپ کے زعم میں یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ فلسطینیوں کو اُن کا حق ملنا چاہیے، لیکن اس معاملے پر مسلم دنیا کے اہم ممالک کو ایک دوسرے سے نہیں اُلجھنا چاہیے۔تمام تنازعات کا مل بیٹھ کر حل نکالا جاسکتا ہے۔او آئی سی کو مُلکوں کے ذاتی مفادات کی سیاست کی بجائے اسلامی اتحاد کے لیے کام میں لایا جائے، تو یہ نہ صرف مسلم دنیا، بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی ایک خوش آیند اَمر ہوگا۔

تازہ ترین