اسلام آباد (انصار عباسی) جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے اہم سیاست دانوں نے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے گلگت بلتستان اور کشمیر کے ایشو پر موخر الذکر کی درخواست پر 16؍ ستمبر کو ملاقات کی۔
دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے سراج الحق نے کہا کہ اپوزیشن رہنمائوں میں سے ایک نے آرمی چیف کو بتایا کہ اس قومی اہمیت کے حامل معاملے پر ایسی ملاقات وزیراعظم عمران خان کو بلانا چاہئے تھی۔ اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ وزیراعظم قومی اہمیت کے حامل معاملات پر بھی اپوزیشن کے ساتھ مل بیٹھ کر بات نہیں کرتے۔
جماعت ا سلامی کے سربراہ نے کہا کہ جن رہنمائوں نے ملاقات میں شرکت کی ان میں شہباز شریف، بلاول بھٹو، خواجہ آصف، شیری رحمٰن، احسن اقبال، مولانا اسعد محمود، خالد مقبول، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر فاروق حیدر، ڈاکٹر جمال دینی، شاہ محمود قریشی، شیخ رشید اور دیگر شامل تھے۔ جماعت اسلامی کے سربراہ بھی اس ملاقات میں شامل تھے۔
انہوں نے کہا کہ ابتدائی طور پر وہ اجلاس میں اپنی مصروفیات کی وجہ سے شرکت کیلئے تیار نہ تھے لیکن بعد میں جب بتایا کہ ملاقات میں گلگت بلتستان اور کشمیر کے معاملے پر بات ہوگی تو وہ آمادہ ہوگئے۔ انہوں نے بتایا کہ اجلاس میں شرکت سے قبل انہوں نے کشمیری قیادت سے بات کی تھی۔
سراج الحق نے کہا کہ وہ یہ تفصیلات دی نیوز کو صرف اسلئے بتا رہے ہیں کیونکہ حکومتی وزیر شیخ رشید نے اس کے بارے میں میڈیا کو پہلے ہی بتا دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عسکری قیادت چاہتی ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کو آئینی حیثیت دی جائے جو کئی برسوں سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں۔ اجلاس میں یہ تجویز سامنے آئی کہ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہو جاتا اس وقت تک گلگت بلتستان کو ’’عبوری صوبہ‘‘ بنانے کا اعلان کیا جائے۔
سراج الحق نے انکشاف کیا کہ عسکری قیادت کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے پر جماعت اسلامی کا موقف جانتی ہے جبکہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کا اصرار ہے کہ یہ معاملہ فی الحال چھوڑ دیا جائے اور گلگت بلتستان میں آئندہ الیکشن کے بعد زیر بحث لایا جائے تاکہ اس معاملے کو کوئی بھی سیاسی جماعت انتخابی مہم کا حصہ نہ بنا سکے۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ آیا اجلاس میں سیاست پر بات ہوئی تو جماعت اسلامی کے سربراہ نے بتایا کہ ’’ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ سیاست دانوں کی ملاقات ہو اور وہ سیاست پر بات نہ کریں۔‘‘