معروف جاسوسی ناول نگار ابن صفی کی کہانی پر مبنی پہلی فلم ’’دھماکا‘‘ تھی ، جس میں نامور اداکار جاوید شیخ بھی متعارف ہوئے۔اس فلم کی کاسٹ میں شبنم، جاویداقبال (جاوید شیخ)، مولانا ہیپی، رحمان، نینی، عرش منیر، انور، لوسی، قربان جیلانی، حنیف، لہری، انور غفار اور تمنا شامل تھیں۔ فلم ساز ادارہ ایم ایم پروڈکشنز، فلم ساز مولانا ہیپی، ہدایت کار قمر زیدی، مصنف ابن صفی، نغمہ نگار سرور بارہ بنکوی، میر تقی میر، موسیقار لال محمد اقبال، عکاسی شفن مرزا کی تھی۔ جمعہ 13؍ دسمبر 1974ء مین سنیما لیرک کراچی اور وینس حیدرآباد تھے۔ اس کی مختصر کہانی یہ تھی کہ خاورسلطان (رحمن) ایک بہت خطرناک گروہ کا سرغنہ ہے، جو غیر ملکی ایجنٹ ہے اور ملکی راز اور اہم معلومات دشمن ممالک کو فراہم کرتا ہے۔ اہم شخصیات کو پھانس کر انہیں بلیک میل بھی کرتا ہے۔
راشد (حنیف) اسی ملک دشمن شخص کا ایک خاص آدمی ہے، جس نے ایک غیر ملکی لڑکی شیرلے (لوسی) کو اپنے جال میں پھنسایا ہوا ہے۔ انسپکٹر نجمی (انور) کئی روز سے راشد کے تعاقب میں تھا ،اسے راشد اور شیرلے پر شک تھا، اسی غرض سے وہ ایک روز شیرلے کی رہائش پر پہنچتا ہے، جہاں وہ اسے مردہ حالت میں ملتی ہے۔ پولیس کے لیے یہ کیس کسی معمے سے کم نہ تھا، پولیس اپنی تمام تر کوشش کے باوجود اس قتل کی گتھی کو نہ سلجھا سکی، تو اس نے اس کیس کے حل کے لیے سیکرٹ سروس کی خدمات لیں۔ سیکرٹ سروس کا سربراہ ایکس ٹو اس واردات کا کھوج لگانے کے لیے اپنے ادارے کے ایک مستند اورماہر جاسوس ظفرالملک (جاوید شیخ) اور جیمسن (مولانا ہیپی) کی ڈیوٹی لگادیتا ہے۔ ان دونوں نے اس خطرناک گروہ کی سرگرمیوں پر بڑی تیز نظر رکھی۔ حالات کے تحت ان دنوں پر اس گروہ کے لوگوں نے بہت حملے کیے، مگر یہ دونوں ہر بار بچ نکلتے۔
ایک روز ظفرالملک کی ملاقات صبیحہ (شبنم) نامی ایک لڑکی سے ہوتی ہے ، جس کا باپ ڈپٹی سیکریٹری کے اعلی عہدے پر فائز تھا۔ صبیحہ کا منگیتر انجینئر قدرت اللہ (لہری) تھا۔ صبیحہ کو اپنے منگیتر سے سخت نفرت تھی۔ ظفرالملک سے ملنے کے بعد صبیحہ کو اپنے خوابوں کی جیسی تعبیر مل گئی ہو، وہ اس کا آئیڈیل تھا۔ قدرت اللہ نے جب دیکھا کہ اس کی منگیتر ظفرالملک میں دل چسپی لے رہی ہے، تو وہ برداشت نہ کرسکا۔ اس نے صبیحہ کو حاصل کرنے کے لیے ملک دشمن ایجنٹ خاور سلطان کے اشاروں پر چلنا شروع کردیا، اس طرح وہ غدار بن گیا۔
خاور نے قدرت اللہ کی کمزوری سے فائدہ اٹھاکر کہا کہ تمہیں صبیحہ مل جائے گی، لیکن تمہیں نہری علاقے کے نقشے ہمارے حوالے کرنا ہوں گے ،اس کے لیے قدرت اللہ نے ہامی بھرلی۔خاور سلطان کے آدمی ایک روز صبیحہ کو اغواء کرلیتے ہیں۔ ظفرالملک اور جیمسن آخرکار خاور سلطان کے ٹھکانے پر پہنچ کر اس کے تمام کارندوں سے مقابلہ کرکے انہیں پولیس کے حوالے کرتے ہیں اور خاور سلطان بھی گرفتار ہوکر اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے۔ صبیحہ اور ظفرالملک مل کر ایک نئی زندگی شروع کرتے ہیں۔
ابنِ صفی کی اس جاسوسی کہانی کو ہدایت کار کی ناقص کارکردگی کی بنا پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ابن صفی کا نام بہ طور مصنف پہلی اور آخری بار اس فلم کے ٹائٹل پر آیا۔ نئے ہیرو جاوید اقبال کو عوام نے یکسر مسترد کردیا۔ اس کی وجہ ہماری فلموں کا اسٹار سسٹم تھا، جس سے عوام باہر نہ آسکے۔ محمد علی، ندیم، وحید مراد اور شاہد کے علاوہ اس دور میں آنےو الے نئے ہیرو ناکام ہوتے رہے۔ اس فلم کی سب سے بڑی خامی اداکار رحمان کا منفی رول تھا، جو اس فلم کااہم کردار تھا، جس میں وہ بُری طرح ناکام رہے۔
مزاحیہ اداکار لہری کو بھی عوام نے اس فلم میں ان کے منفی ٹائپ کردار میں پسند نہ کیا۔ شبنم کی اداکاری اس فلم میں مختلف شیڈز میں نظر آئی، کبھی اسے بے حد شوخ و چنچل دکھایا گیا، جس میں وہ پتنگ بازی بھی کررہی ہے اور کہیں اسے اس قدر سنجیدہ دکھایا گیا کہ لوگ سمجھ نہ پائے کہ آخر اس کا کردار ہے کیا۔ فلم ساز مولانا ہیپی بھی اس فلم میں سائیڈ ہیرو کے طور پر نظر آئے جن کا گیٹ اپ بے حد پسند کیا گیا، مگر اداکاری یُوں لگتا تھا کہ جیسے ان کے بس کی بات نہیں۔ نئی اداکارہ لوسی کے چند مناظر بے حد دل کش تھے، لیکن ان کا رول نہایت ہی مختصر رہا۔
اپنی بہت سی خامیوں کی وجہ سے یہ فلم صرف نام ہی کی دھماکا ثابت ہوئی، جو بزنس کے حوالے سے کوئی دھماکا نہ کرسکی، بلکہ ڈیڈ فلاپ ثابت ہوئی۔ فرسٹ رن کے بعد یہ فلم بعد میں کسی سنیما پر نہ پیش کی جاسکی۔ پہلی فلم کی ناکامی نے جاوید شیخ کو مزید 10؍ سال تک کسی فلم میں کاسٹ نہ کروایا اور جب ان کی فلم کبھی الوداع نہ کہنا ریلیز ہوئی، تو وہی جاوید شیخ جسے عوام نے دھماکا میں مسترد کردیا تھا اس فلم میں سپر ہٹ ہوگیا۔
اس فلم کے چند نغمات ’’الٹی ہوگئیں سب تدبیریں‘‘ (سلیم شہزاد)۔ اڑتی ہوئی چلی رے پتنگ (شہناز بیگم)۔ راہ طلب میں کون کس کا (حبیب ولی محمد)۔