• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ روز آٹھ سال قبل پیش آنے والے اندوہناک بلدیہ ٹائون آتشزدگی کے واقعہ کے سنائے جانے والے فیصلے سے جہاں دو سو ساٹھ خاکستر انسانی جانوں کے لواحقین کی کسی حد تک اشک شوئی ہوئی ہے وہیں یہ سوال بھی پوری شدت کے ساتھ سر اٹھانے لگا ہے کہ آخر کب ہم فوری اور بروقت انصاف کی فراہمی کیلئے کارآمد و موثر نظام کے قیام کی جانب بڑھیں گے۔ سانحہ بلدیہ کوئی معمولی واقعہ نہ تھا بلکہ 11ستمبر 2012شہر کراچی کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن تھا، جب بلدیہ ٹاؤن میں واقع فیکٹری کو بھتہ نہ ملنے پر آگ لگا دی گئی اور پل بھر میں 264انسانی جانیں خاکستر ہو گئیں۔ بلدیہ کیس کی شروعات سے انجام تک کئی اہم موڑ آئے، تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی بھی تشکیل دی گئی جبکہ ان آٹھ سال کے دوران تقریباً 170سماعتیں ہوئیں اور آخر کار 22ستمبر کو فیصلہ سنایا گیا۔ 250صفحات پر مشتمل فیصلے میں فاضل عدالت نے دہشت گردی کے دوران زخمی کرنے، آگ لگا کر انسانی جانوں کو مار ڈالنے، آتش گیر مادے سے عمارت کو تباہ کرنے، بھتے کے لئے قتل کرنے کے جرم میں مجموعی طور پر 82سال قید بامشقت کی سزائیں سنائی ہیں۔ ایم کیو ایم کے سابق سیکٹر انچارج رحمٰن بھولا اور زبیر چریا کو 264بار سزائے موت اور مجموعی طور پر 132سال قید بامشقت سمیت بھاری جرمانوں کی سزا سنائی گئی جبکہ عدم ثبوت پر ایم کیو ایم کے رہنما محمد عبدالرؤف صدیقی، عمر حسن قادری، ڈاکٹر عبدالستار اور مسماۃ اقبال ادیب خانم کو بری کردیا گیا۔ عدالت نے مرکزی ملزمان حماد صدیقی اور علی حسن قادری کیخلاف مقدمہ داخل دفتر کرنے کا حکم دیتے ہوئے ملزمان کے تاحیات وارنٹ گرفتاری جاری کردیے ہیں۔ مذکورہ فیصلے پر مختلف قانونی حلقے ملی جلی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ ناکافی شواہد پر منصوبہ سازوں کا سزا سے بچ نکلنا ایسا نکتہ ہے جو ملکی ناقص تفتیشی نظام کی نشاندہی کرتا ہے۔ ضروری ہو گیا ہے کہ تفتیشی نظام میں پائی جانے والی خامیوں کو دور کرنے پر توجہ دی جائے۔

تازہ ترین