(گزشتہ سے پیوستہ)
2016 ء میں ماحولیات کے بارے میں سینیٹ کی سب کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر کریم خواجہ کی دعوت پر نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوشنو گرافی (این آئی او)‘ بحریہ اور سپارکو (Suparco) سے تعلق رکھنے والے ماحولیات کے ماہرین کے علاوہ پارلیمنٹ، سندھ کی صوبائی اسمبلی، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے نمائندے کراچی میں این آئی او کے آفس میں ایک اجلاس میں جمع ہوئے تاکہ سمندر میں ہونے والی دخل اندازی (Sea Intrusion) کی وجہ سے سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کے لئے پیدا ہونے والے سنگین خطرات سے ’’وژن 2025 ء‘‘ کی روشنی میں ان ساحلی علاقوں کو کیسے محفوظ کیا جائے۔ اس اجلاس میں خاص طور پر سندھ میں دریائے سندھ پر متواتر ڈیموں کی تعمیر‘ دریائے سندھ سے سمندر میں جانے والے پانی کے کوٹے کو کم سے کم کرنے اور انڈس ڈیلٹا کا تحفظ نہ کرنے کی وجہ سے سندھ کے سمندر کے لئے پیدا ہونے والے خطرات کی طرف ان ماہرین نے توجہ دلائی۔ یاد رہے کہ گزشتہ کالم میں‘ میں نے ان ماحولیاتی ماہرین کے حوالے سے ان کے اس اندیشے کا اظہار کیا تھا کہ اگر دریائے سندھ سے سمندر کی طرف آنے والے اس پانی کے حوالے سے صورتحال کو درست نہ کیا گیا تو خطرہ ہے کہ 2060 ء تک نہ فقط سندھ کے دو شہر ٹھٹھہ اور بدین بلکہ کراچی کا وسیع شہر بھی سمندر برد نہ ہوجائے۔ اس اجلاس میں ماحولیاتی ماہرین کی طرف سے جو اندیشے ظاہر کئے گئے اس کے بارے میں ماحولیات کے بارے میں سینیٹ کی کمیٹی نے اپنی رپورٹ بنائی۔ اس رپورٹ میں ان ماہرین کی طرف سے سندھ اور بلوچستان کے کچھ ساحلی علاقوں کے معائنہ کے بعد جو ریمارکس دیئے ان کو بھی اس رپورٹ میں شامل کیا گیا۔ یہ رپورٹ کونسل آف کامن انٹرسیٹس (CCI)‘ پلاننگ ڈویژن کے علاوہ اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم کے سیکریٹریٹ کو بھی ارسال کی گئی۔ اس رپورٹ کے ذریعے سینیٹ کی سب کمیٹی نے ان اداروں سے گزارش کی کہ ان خطرات کا سختی سے نوٹس لیا جائے اور ان ایشوز کے بارے میں ماہرین کے ذریعے تفصیل سے تحقیقات کرائی جائے اور بعد میں اس تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی میں فوری ضروری اقدامات کئے جائیں تاکہ سندھ کے ان سمندری علاقوں کو ہمیشہ کے لئے تحفظ فراہم کیا جاسکے۔ اس سلسلے میں خاص طور پر کراچی شہر کا ذکر کیا گیا کہ کراچی نہ فقط پاکستان کا فنانشل کیپٹل مگر سب سے بڑا شہر بھی ہے۔ یہ بات بھی کم دلچسپ نہیں کہ اس اجلاس میں کچھ ماحولیاتی ماہرین نے خاص طور پر سندھی سمندر کے کناروں پر واقع بڑی تعداد میں واقع جزیروں کا بھی ذکر کیا اور خبردار کیا کہ ان جزیروں کا غلط استعمال کرنے سے پرہیز کیا جائے کیونکہ یہ جزیرے خاص طور پر کراچی شہر کی پہلی دفاعی لائن ہیں‘ ان جزیروں پر تمر کے وسیع جنگلات ہیں جو کراچی میں آنے والے طوفانوں کو روک سکتے ہیں۔ کچھ ماہرین نے یہ بھی اندیشہ ظاہر کیا کہ اگر ان جزیروں کا غلط استعمال کیا گیا تو مستقبل میں کسی وقت بھی خطرناک ترین سمندری طوفان کراچی شہر پر حملہ کرکے شہر کو تہس نہس کرسکتے ہیں۔ اجلاس میں سول سوسائٹی کے کئی اور اہم لوگوں کے علاوہ عارف علوی جو اس وقت ملک کے صدر ہیں اور اسد عمر جو اس وقت ملک کے وفاقی وزیر ہیں وہ بھی موجود تھے۔ کچھ حلقوں کو توقع تھی کہ یہ سب کچھ سننے کے بعد اب جب کہ وہ ملک کے اہم عہدوں پر ہیں ان خطرات کے حوالے سے حکومت کی طرف سے ہونے والے فیصلوں پر اثر انداز ہوں گے اور ایسے اقدامات کو روکنے کی کوشش کریں گے جبکہ سندھ کے کئی حلقوں کے مطابق اس وقت نہ فقط انڈس ڈیلٹا کے تحفظ کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے جارہے ہیں بلکہ دریائے سندھ پر ڈیم پر ڈیم بنائے جارہے ہیں تو دوسری طرف اس وقت پانی کے بارے میں 91 ء کے معاہدے پر عمل کرنے کی بجائے اور تو اور دریائے سندھ سے سندھ کی طرف برائے نام پانی کی مقدار بھیجی جارہی ہے۔ ایک طرف تو یہ حال ہے جبکہ دوسری طرف سندھ کے سمندر کے مختلف جزیروں پر کئی شہر بنانے کے نہ فقط اعلانات کئے جارہے ہیں بلکہ شاید اس سلسلے میں عملی طور پر پیشرفت بھی ہورہی ہے۔ اس ساری صورتحال کے مدنظر اس وقت سندھ کے اکثر سیاسی حلقوں اور ماہرین میں بحث چل رہی ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ایک طرف سندھ کا سندھی سمندر سے رشتہ ہی ختم کردیا جائے اور د وسری طرف دریائے سندھ کو سندھ سے دور ہی رکھا جائے۔ اس سلسلے میں سندھ کے ان حلقوں کو خود سندھ کی موجودہ حکومت کے رویے پر بھی شدید اعتراضات ہیں اور اس قسم کی باتیں کی جارہی ہیں کہ سندھ کی موجودہ حکمران پارٹی کی قیادت شاید خود کو محفوظ کرنے کے لئے ان حساس ایشوز پر کسی بھی قسم کا کمپرومائز کرنے کو تیار ہے؟ (جاری ہے)