• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ 20ستمبر کو اسلام آباد میں ہونے والی اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کی اہم ترین چیز نااہل قرار دئیے گئے سابق وزیراعظم نواز شریف کی تقریر تھی جسے وزراء نے بغاوت اور غداری قراردیا لیکن اس اہم اجتماع کے نتائج اور مستقبل کے سیاسی منظر نامے کے بارے میں بہت کچھ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے.

نوتشکیل پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے وزیراعظم عمران خاں کو استعفیٰ دینے پر مجبور کرنے کیلئے حکومت کے خلاف اپنی تحریک کے سلسلے میں اکتوبر میں لاہور میں اپنی طاقت کے پہلے مظاہرے کی تیاریاں شروع کردی ہیں. منگل کو جے یو آئی(ایف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کراچی میں بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کرکے پی ڈی ایم کے لیے طے کردہ لائحہ عمل پر عملدرآمد پر تبادلہ خیال کیا.

انہوں نے مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف سے بھی فون پر بات کی. دوسری طرف حکومت نے نہ صرف اپوزیشن کا مطالبہ مسترد کردیا ہے بلکہ عمران خاں اہم اپوزیشن لیڈروں پر احتساب کے ذریعے دباؤ ڈالنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں اور خبردار کیا ہے کہ وہ کوئی این آر او نہیں دیں گے. یہ بھی امکان ہے نیب کی انکوائریوں، تحقیقات اور ریفرنسوں میں تیزی آجائے اور آئندہ ہفتوں میں اہم اپوزیشن لیڈروں کی گرفتاریاں بھی ہوں .

وزیراعظم کے خصوصی معاون شہزاد اکبر نے بدھ کو مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف اور دیگر کے خلاف ٹی ٹی کیس کے نام سے معروف منی لانڈرنگ کیس کے بارے میں پریس کانفرنس کرکے دھماکہ کردیا. انہوں نے کہا کہ یہ اب تک کا نیب کا سب سے جامع کیس ہے.

پی ڈی ایم کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار دو اہم اپوزیشن جماعتوں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی سنجیدگی پر ہے. بلاشبہ دوسال میں پہلی مرتبہ اپوزیشن جماعتیں کم از کم ایک 26 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ اور لائحہ عمل پر متفق ہوئی ہیں لیکن ابھی اجتماعی استعفے اور تحریک عدم اعتماد شامل نہیں کیونکہ کامیابی کے یقین تک ایسا نہیں کیا جائے گا. وہ اس طرح کی شرمندگی سے بچنا چاہتی ہیں جیسی چئیرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد اور حالیہ فیٹف بل پر ہوئی.

پی ڈی ایم، نہ پی این اے ہے اور نہ ایم آر ڈی. اس میں شامل جماعتوں میں ایک دوسرے پر اعتماد اور بھروسے کی کمی ہے. ان کی پہلی آزمائش جلسہ عام کے ذریعے طاقت کے مظاہرے سے ہوگی. جو امید ہے لاہور میں ہوگا کیونکہ پی ڈی ایم اپنی تحریک کا مرکز پنجاب کو بنانا چاہتی ہے. اب دیکھنا ہوگا کہ کیا مسلم لیگ ن جو ووٹ بنک رکھنے والی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی ہے، لیڈ لے سکتی ہے.

اگر ن لیگ میاں صاحب کی ریلیوں جیسی تحریک پیدا کرسکتی ہے تو اس سے پی ٹی آئی کیلئے پنجاب میں کچھ مسائل پیدا ہوسکتے ہیں لیکن اس کیلئے مریم نواز کی شمولیت ضروری ہوگی. 2013 اور 2014 میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے حامیوں نے حمایت حاصل کرنے میں اچھی خاصی کامیابی حاصل کی. لیکن ماڈل ٹاؤن کا سانحہ نہ ہوا ہوتا تو شاید ان کی تحریک اتنا زور نہ پکڑتی. یہ ٹھوس حقائق ہیں.

1977 میں بھی پی این اے کی تحریک اگرچہ 7مارچ 1977 کو صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کے بائیکاٹ سے شروع ہوچکی تھی لیکن اس نے زور 9 اپریل کی فائرنگ کے بعد پکڑا.

دوسرے یہ کہ 1977 اور 2013.14 کی دونوں تحریکیں انتخابات کے فوراً بعد چلیں جب لوگ پہلے ہی متحرک اور سڑکوں پر تھے. اب پی ڈی ایم کا معاملہ یہ ہے کہ اس نے اپنے حامیوں کو باہر نکالنا ہے۔

تازہ ترین