بلوچستان میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا سلسلہ پھر زور پکڑ گیا ، صوبے میں 131 نئے کیسز سامنے آنے کے بعد متاثرہ افراد کی تعداد 14269 ہوگئی تاہم کورونا وائرس سے حالیہ دنوں میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی وفاقی حکومت اور صوبوں کی مشاورت سے تعلیمی ادارئے بتدریج کھولنے کے فیصلے کے تحت 15 ستمبر سے ملک بھر کی طرح بلوچستان میں بھی تعلیمی ادارئے کھولے جانے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے ۔ تاہم دوسری جانب تشویش ناک امر یہ ہے کہ بلوچستان کے مختلف تعلیمی ادارئے کھولتے ہی کرونا کے کیسز آنا شروع ہوگئے اور ان سطور کے تحریر کیے جانے تک تعلیمی ادروں میں کورونا وائرس کے پھیلائو کے باعث صوبے کی تین یونیورسٹیاںاور14اسکولز کو فوری طور پر بند کر دیا گیا ہے۔
بند کیے جانے والے اسکولز میںکوئٹہ کے ایک نجی اسکول سمیت تین سرکاری گرلز اسکولز، گوادر میں تین،ژوب اور ڈیرہ بگٹی میں ایک ایک اسکولوں میں کور ونا کیسز کے سامنے آنے کے بعد تدریسی سرگرمیاں معطل کرکے فوری طور پر بند کر دیا گیا ہے جبکہ جامعہ بلوچستان کھلتے ہی جامعہ میں شعبہ صحت حکومت بلوچستان کے تعاون سے کورونا کے ٹیسٹ کیمپ لگائے گئے جس میں زیادہ تر اساتذہ ، طلبہ اور ملازمین کے ٹیسٹ مثبت آئےجس کے بعد جامعہ کی انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ جامعہ میں درس و تدریس کا عمل عارضی طور پر بند رہے گا اور بوائز و گرلز ہاسٹل بھی بند رہیں گے دوسری جانب کوئٹہ میں قائم سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی کوئٹہ میں شروع ہونیوالی کلاسز ملتوی کردی گئی ہیں لورالائی میڈیکل کالج کے تین ڈاکٹرز عملے کے تین ارکان اور چار طلباء میں کورونا وا ئر س کی تصدیق ہو نے پر میڈیکل کا لج کو دوبارہ بند کردیا گیا ہے ۔
تعلیمی اداروں میں کورونا وائرس کے حوالے سےترجمان حکومت بلوچستان لیاقت شاہوانی کا موقف سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے ابت کا اظہار کیا ہے کہ کورونا کے بڑھتے ہوئے کیسز کے پیش نظر تعلیمی اداروں کے کھولے جانے سے متعلق صوبائی حکومت کے تحفظات تھے لیکن ایس او پیز کے تحت پورے ملک میں تدریسی سرگرمیوں کے حوالے سےحکمت عملی بنائی گئی تھی اس پر صوبے نے بھی عملدرآمد شروع کیا تاہم صوبے میں کورونا کے کیسز میں اضافہ ہورہا ہے، تعلیمی اداروں میں اب تک 67 مثبت کیسز رپورٹ ہونے کے بعدمتعددتعلیمی ادارے بند کردیئے گئے ہیںانہوں نے واضح کیا ہے کہ بلوچستان میں گزشتہ دو ماہ کے مقابلے میں رواں ماہ کے دوران کورونا کے کیسز میں ایک بار پھر سے اضافہ ہوا ہے، صورت حال کو دیکھتے ہوئے یہ اندیشہ تھا کہ ایسی صورت حال میں تعلیمی اداروں کا کھولا جانا خطرناک ہوسکتا ہے۔
تاہم وفاق میں جوحکمت عملی طے ہوئی تھی صوبائی حکومت نے بھی اس پر عملدرآمد کرتے ہوئے پہلے مرحلے میں میٹرک،انٹرمیڈیٹاور جامعات کی سطح پر تدریسی عمل شروع کیااس دوران ہر تعلیمی ادارے کے 5 فیصد طالب علموں کا رینڈم ٹیسٹ لینے کا فیصلہ کیاگیا تھا او اب تک تعلیمی اداروں میں 950 ٹیسٹ کئے گئے جن میں 67 مثبت کیسز رپورٹ ہوئے ، کورونا کے کیسز میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے عندیہ دیا ہے کہ اگر کیسزمیں اسی طرح اضافہ ہوا تو زیادہ متاثرہ علاقوں میں دوبارہ سمارٹ لاک ڈاؤن کی طرف جاسکتے ہیں ۔
بلوچستان میں تمام تعلیمی ادارئے ملک بھر میں کورنا وائرس کے باعث کئی ماہ سے بند تھے ، صوبے کے گرم علاقوں کے اسکولز کو مارچ میں کورونا وائرس کے باعث بند کیا گیا تھا جبکہ سرد علاقوں کے تعلیمی ادارے گزشتہ سال سالانہ امتحانات اور نتائج آنے کے بعد دسمبر 2019 سے موسم سرما کی طویل تعطیلات کے بعد نئے تعلیمی سال کے دوران کورنا وائرس کی وجہ تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز ہی نہ کرسکے تھے ، اس دوران سب سے اہم مسلہ جو درپیش تھا وہ میٹرک کے طلبا کے نتائج کے حوالے سے صوبائی حکومت کو درپیش تھی کیوںکہ نویں اور دسویں جماعت کے سالانہ امتحانات کے دوران کورونا وائرس کے باعث صوبے کے تمام تعلیمی ادروں کی بندش کے ساتھ یہ امتحانات بھی درمیان میں ہی روک دیئے گئے تھے طویل غور کے بعد نویں جماعت کے طلبا کو دسویں جماعت میں پرموٹ جبکہ دوسویں جماعت کے تمام طلبا کے ان کے نویں جماعت کے حاصل کردہ نمبروں کے برابر نمبر دیئے گئے تھے۔
تاہم اس کے بعد بھی تعلیمی ادرائے ستمبر کے وسط تک بند تھے جس کے بعد اس بات کو تقویت مل رہی تھی کہ اب جبکہ صوبے کے سرد علاقوں کے تعلیمی ادارے جو عام طور پر موسم سرما کی شدت کے پیش نظر دسمبر کے وسط میں بند کردیئے جاتے ہیں تو شائد رواں سال کے دوران سرد علاقوں کے تعلیمی ادرائے دو سے تین ماہ کے لئے نہیں کھولے جائیں گے اور تمام طلبا کو میٹرک کی طرز پر اگلی جماعتوں میں پرموٹ کیا جائے گا تاہم صوبائی حکومت نے وفاق میں ہونے والے فیصلے کے تحت اسکول کھو دیئے جس کے ساتھ ہیں تعلیمی اداروں میں کورونا وائرس کے کیسز سامنے آنا شروع ہوگئے ، بلوچستان کے سرد علاوں میں موسم سرد ہونا شروع ہوگیا ہے جبکہ کوئٹہ کے اکثر تعلیمی ادروں سمیت اندرون صوبہ خاص طور پر اسکولوں میں گیس یا متبادل ایندھن کی سہولت بہت ہی کم ہے ایسے میں کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز کے دوران تعلیمی اداروں کو کھولنے سے مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
اس حوالے سے یقینی طور پر کرونا ایس او پیز کے ساتھ حکومت کو تعلیمی ادراوں میں گیس کی سہولت یا متبادل ایندھن کا بندوبست کرنا ہوگا تاکہ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بچے ممکنہ طور پر اس مرض کا شکار نہ ہوسکیں، دوسری جانب تعلیمی اداروں کی طویل بندش سے نجی تعلیمی ادارے شدید معاشی مشکلات کا شکار ہوگئے ہیں چھوٹے نجی تعلیمی ادرئے تو بند ہونے کے قریب آگئے ہیں صوبائی حکومت کو ان تعلیمی ادروں کی جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ان کے مسائل میں کمی کے ساتھ علم کی روشنی پھیلانے والے یہ تعلیمی ادرائے مکمل بندش سے بچ سکیں۔