اسلام آباد میں میں اے پی سی کے بعد مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے کارکنوں میں امید کی ایک کرن پیدا ہوئی ہے، خاص طور پر میاں نواز شریف کے خطاب سے وہ جمود ٹوٹا ہے ، جو ان کی خاموشی کی وجہ سے مسلم لیگ ن پر طاری ہو چکا تھا،جنوبی پنجاب اور ملتان کے مسلم لیگی کارکنوں اور رہنماؤں نے میاں نواز شریف کے خطاب کو بڑی دلچسپی کے ساتھ سنا اور انہیں یوں لگا کہ جیسے ان کی پارٹی میں نئی جان پڑ گئی ہے، میاں نواز شریف نے جن خیالات کا اظہار کیا وہ ان کی توقعات سے کہیں زیادہ حوصلہ افزا اور ان کے اندر ایک نئی زندگی دوڑانے کا باعث بنا، غالباً اس اے پی سی کے بعد اگر کچھ بھی نہ ہوا ،تو کم از کم میان نواز شریف کا اپنے کارکنوں اور رہنماؤں سے ویڈیو لنک یا پریس کانفرنسوں کے ذریعے ایک رابطہ ضرور بحال ہو جائے گا، اور وہ جو کہا جارہا تھا کہ پاکستان میں مسلم لیگ ن کی سیاست اب ختم ہو گئی ہے یا اس کے اندر ایک واضح دراڑ موجود ہے، نواز شریف کے اس خطاب نے اس سارے تاثر کو دور کر دیا ہے۔
حکومت نے اچھا کیا کہ عین وقت پر اپنا وہ فیصلہ تبدیل کرلیا جو نواز شریف کے خطاب کو چینلز پر رکوانے کے لیے کیا جانے والا تھا ،اگر ایسا کیا جاتا ،تو اس سارے عمل کی اک طرف تو حکومت پر شدید تنقید ہوتی ،تو دوسری طرف سوشل میڈیا پر اس خطاب کو دیکھنے والوں کی تعداد کروڑوں تک پہنچ سکتی تھی ،اس اے پی سی کا آنے والی سیاست پر کیا اثر ہوگا اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا، تاہم اس اے پی سی میں مریم نواز اور بلاول بھٹو کی عملاً شرکت اور نواز شریف اور آصف علی زرداری کے ویڈیو لنک خطاب کی وجہ سے اس کی اہمیت دو چند ہو چکی ہے۔
اب اپوزیشن جماعتوں کے کارکنوں میں یہ تاثر پیدا ہو گیا ہے کہ اپوزیشن حکومت کے خلاف سنجیدہ ہے اور ایک بڑی سیاسی تبدیلی کے مستقبل میں امکانات روشن ہیں۔ادھر وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار دو دن کے دورے پر ملتان آئے اور پہلی بار یہ منظر دیکھنے کو ملا کہ سرکٹ ہاؤس میں جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کی افتتاحی تقریب کے موقع پر تحریک انصاف کے نوجوان کارکنوں نے فلک شگاف مخالفانہ نعرے بازی کی، اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ پنڈال میں وزیراعظم عمران خان کی کوئی تصویر موجود نہیں تھی نہ ہی پارٹی کے وائس چیئرمین اور ملتان سے تعلق رکھنے والے سینئر رہنما شاہ محمود قریشی کو کسی جگہ نمایاں کیا گیا تھا۔
اس پر کارکنوں نے شدید احتجاج کیا مگر وزیراعلی نے ان کی اس نعرہ بازی کا کوئی نوٹس نہیں لیا ،البتہ صوبائی وزیر ڈاکٹر اختر ملک نوجوانوں کو سمجھانے کے لئے سٹیج سے نیچے آئے ،مگر انہوں نے ان کی بات سننے سے انکار کر دیا اور نعرے لگاتے ہوئے واک آؤٹ کرگئے، سرکٹ ہاؤس سے باہر آکر بھی انہوں نے احتجاجی نعروں کا سلسلہ جاری رکھا،مگرکسی سیاسی رہنماا نہیں منانے یا واپس لانے کی کوشش نہیں کی ، وزیراعلیٰ عثمان بزدار ایک طویل مدت کے بعد ملتان کے تفصیلی دورے پر آئے تھے،یہاں انہوں نے مختلف پراجیکٹس کا افتتاح کیا،کئی اعلانات کئے اور یہ خوشخبری بھی سنائی کہ جنوبی پنجاب صوبہ بھی ان کے دور میں ہی بنے گا، انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ شہر کے سب سے بڑے اورتاریخی کالج گورنمنٹ ایمرسن کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیا جارہا ہے۔
اگرچہ یہ اعلان خوش آئند نظر آتا ہے لیکن جہاں تک اساتذہ کی تنظیموں کا تعلق ہے تو انہوں نے اس اعلان کو غریب طالب علموں سے سستی تعلیم کی سہولیات واپس لینے کے مترادف قرار دیا ، ان کا کہنا ہے کہ ماضی میںجب گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کچہری کو وومن یونیورسٹی بنایا گیا تو وہ سب سے بڑاکالج غریب طالبات کے لیے بند ہو گیا تھا اور ان پر سستی تعلیم کے دروازے بند ہو گئے تھے،اب اگر 9 ہزار طالب علموں پر مشتمل اس تعلیمی ادارے کو بھی یونیورسٹی بنا دیا جاتا ہے ، تو اس کا کا سارا سٹرکچر تبدیل ہو کر رہ جائے گا، اس وقت اس کالج میںایم اے ، ایم ایس سی اور بی ایس کے 26 پروگراموں میں طلبہ اور طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں جنہیں فی سمسٹر صرف آٹھ ہزار روپے ادا کرنا پڑتے ہیں جبکہ یونیورسٹی بننے کی صورت میں انہیں 45 ہزار روپے فی سمسٹر ادا کرنا پڑیں گے، جو ظاہر ہے کسی غریب اور متوسط طبقہ کے طالب علم کے لئے مشکل کام ہے۔
اس لئے اساتذہ تنظیموں نے مطالبہ کیا ہے کہ پہلے سے موجود کالجوں کو یونیورسٹی بنانے کی بجائے علیحدہ سے نئی یونیورسٹیاں بنائی جائیں اور گورنمنٹ کالج جو طلبہ اور طالبات کو برائے نام فیسوں پر سستی تعلیم دے رہے ہیں ان کے دروازے ان پر بند نہ کئے جائیں۔دوسری طرف وزیراعلیٰ کے اسی دورے کے دوران پروٹوکول کے نام پر انتظامیہ نے ایسے بھونڈے اقدامات کئے کہ جن کی وجہ سے شہری دو دن تک عذاب میں مبتلا رہے ،جہاں سے وزیراعلیٰ نے گزرنا بھی نہیں تھا،وہ سڑکیں بھی بند رکھی گئیں جبکہ وزیراعلیٰ مصروفیات کے سلسلہ میں سرکٹ ہاؤس اور ڈسٹرکٹ جیل میں موجود تھے، تب بھی ان سے کئی میل دور کی سڑکیں انتظامیہ نے بند کر رکھی تھیں ،حتی کہ نشتر ہسپتال روڈ کو بھی بند کردیا گیا ، اس بدترین ٹریفک پلان کی وجہ سے جہاں عام آدمی کو شدید اذیت کا سامنا کرنا پڑا، وہاں ایمبولینس کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی ،جسے نشتر ہسپتال کے سامنے سڑک پر پروٹوکول کی وجہ سے روکا گیا تھا،ویڈیو میں بتایا گیا کہ اس میں ایک زخمی شخص موجودہے او ایمبولینس کو روک اس کی زندگی کو چھینا جا رہا ہے یہ ویڈیو جب وائرل ہوئی ،تو ملتان پولیس اور انتظامیہ حرکت میں آ گئی اور انہوں نے ایمبولینس کے ڈرائیور سے یہ بیان دلوایاکہ اس میں ایک نوجوان کی لاش موجود تھی جسے ہسپتال سے گھر واپس لے جایا جا رہا تھا۔
معاملہ چاہے کچھ بھی ہو ،سوال یہ ہے کہ جہاں سے وزیراعلیٰ نے گزرنا بھی نہیں تھا ،اس اہم سٹرک کو کیوں بند کیا گیا ؟ اگر ایمبولینس میں ڈیڈ باڈی بھی موجود تھی،تو بھی اسے روکنا ، کسی بھی لحاظ سے کوئی احسن فیصلہ نظر نہیں آتا، بلکہ یہ تو اور بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ لاش لے جانے والی ایمبولینس کو فوری راستہ دے کر منزل کی طرف روانہ کیا جائے۔ وزیر اعلی نےایمبولینس معاملہ کا صرف ایک نوٹس لینے پراکتفا کیا ہے ،حالانکہ انہیں ٹریفک پلان اور سیکوریٹی پلان بنانے والوں کے خلاف کارروائی کا حکم دینا چاہیے تھا۔