• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ نے بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کو اختیارات نہ دینے کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں کی سماعت کے دوران جو ریمارکس دیئے انہیں آئینی و انتظامی امور میں رہنمائی کے لئے سامنے رکھا جائے تو کئی معاملات میں پیچیدگیوں اور مشکلات سے بچا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس نے ،جو تین رکنی بنچ کی سربراہی کر رہے تھے ، درست نشاندہی کی بلدیاتی اختیارات صوبائی یا وفاقی حکومت کو دینا آرٹیکل 140کی خلاف ورزی ہے اور مقامی حکومتوں کا ہونا کسی کی چوائس نہیں، آئینی لزوم ہے انہوں نے متعلقہ فریقوں اور رہنمائوں کو یہ بات بھی یاد دلائی کہ اختیارات کی بات کرتے ہوئے ذمہ داری اور احتساب کے پہلوئوں کو بہر طور نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ اس امر کی بھی نشاندہی کی گئی کہ ہمارے ہاں اداروں میں رابطے کا فقدان ہے اور حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز میں اختیارات کی تقسیم کی روح کو یا تو سمجھا ہی نہیں گیا یا جان بوجھ کر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ وفاق میں جس پارٹی کی حکومت ہوتی ہے، صوبائی سطح پر کسی ایک یا زائد مقامات سے یہ گلہ سامنے آتا رہتا ہے کہ وہ صوبے کے اختیارات اور خودمختاری کا پوری طرح احترام نہیں کرتی۔ جبکہ انہی شاکی صوبائی حکومتوں سے بعض حلقے یہ گلہ کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ یا تو مقامی حکومتوں کے قیام و انتخاب سے بچنے کی کوشش کرتی ہیں یا انہیں اختیارات دینے سے گریزاں رہتی ہیں۔ بلدیاتی یا مقامی حکومتوں کا نظام دنیا میں جمہوریت کی نرسری کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس میں عام لوگوں کو اپنی بستی یا محلے کے جانے پہچانے لوگوں کو بطور نمائندہ منتخب کرکے مقامی مسائل کے حل کے لئے رابطے کرنے میں آسانی رہتی ہے۔ کئی ترقی یافتہ ملکوں میں اس نظام کو ایک خاص کائونٹی یا ٹائون یا یونٹ کی صورت گری کے بعض اختیارات کے ساتھ پانی، سیوریج، صفائی، تعلیم، صحت اور دوسری شہری سہولتوں کے اختیارات تفویض کئے جاتے ہیں۔ بعض علاقوں میں مقامی پولیس بھی شہری حکومت سے منسلک ہوتی ہے۔ وفاق، صوبوں اور مقامی حکومتوں کے ارکان اور ادارے اپنی اپنی حدود میں رہ کر آئین میں طے کردہ ذمہ داریاں باہمی ربط ضبط سے پوری کریں تو سب کچھ ٹھیک رہتا ہے۔ فاضل چیف جسٹس کے ریمارکس نے کراچی سمیت کئی شہروں کے لوگوں کو اپنا دیکھا ہوا وہ زمانہ یاد دلا دیا جب رات کو تین بجے کام شروع ہو جاتا تھا، سڑکوں کی ہر روز اور شہر کے ٹاورز وغیرہ کی ہفتہ وار دھلائی ہوتی تھی، بارش سے قبل آنے والی گھٹا خوشی کی نوید دیتی محسوس ہوتی تھی،آسمان پر نظر آنے والے بادل اس طرح کےخدشات جنم نہیںدیتے تھے جیسے پچھلے برسوں سے محسوس ہوتے رہے ہیں۔ اس بات کو اختیارات کی رسہ کشی اور وسائل کی غیر متوازن منتقلی کا شاخسانہ کہا جائے یا کوئی اور نام دیا جائے، فاضل بنچ کے یہ ریمارکس مبنی بر حقیقت ہیں کہ کراچی کو جو بھی نظام دیا گیا اس کے اچھے نتائج نہیں نکلے، اسلام آباد میں بھی اختیارات کا مسئلہ ہے جبکہ خیرپختونخوا اور بلوچستان کے بلدیاتی اختیارات صرف کاپی پیسٹ ہیں اور سندھ کا بلدیاتی قانون نہ تین میں ہے نہ تیرہ میں۔ عدالت قانون سازی کے لئے گائیڈ لائن دے سکتی ہے مگر کام بہرحال متعلقہ حکومتوں اور اداروں کو کرنا ہے۔ قانون سازی کا مقصد معاشرے کو افراتفری سے بچانا اور لوگوں کی فلاح و بہبود پیش نظر رکھنا ہوتا ہے۔ دنیا کے بیشتر ملکوں میں تین تہوں والا حکومتی نظام اسی اصول پر چل رہا ہے۔ ہم بھی اپنی مقامی حکومتوں کے اختیارات، وسائل اور کارکردگی میں اس اصول کو مقدم رکھ کر اپنے عوام کو زیادہ سہولتیں دے سکتے ہیں۔ یہ بات بہر طور ملحوظ رکھنے کی ہے جہاں جہاں آئین میں مقررکردہ حدود سے تجاوزات کی جاتی ہیں وہیں سے پیچیدگیاں نکلتی ہیں جن سے بہر طور پر بچنا ضروری ہے۔

تازہ ترین