12اکتوبر والے مارشل لا کے کیس کے فیصلے پر بارہا وضاحتوں اور توجیہات کے باوجود بھی تبصرے، تعریف و توصیف، نکتہ چینی اور تنقید کاسلسلہ جاری ہے۔ ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے کی مفصل وجوہات زیرِ اشاعت سوانح عمری ’’ارشاد نامہ‘‘ میں درج ہیں۔
12اکتوبر 1999کو جنرل مشرف، نواز حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار میں آئے، تو یہ اقدام توقع کے عین مطابق سپریم کورٹ میں چیلنج ہوگیا۔ بحیثیت چیف جسٹس آف پاکستان میری سربراہی میں بارہ رکنی لارجر بنچ نے کیس سماعت کیا۔ طویل بحثیں ہوئیں، دونوں طرف سے دلائل کے انبار لگا دیے گئے، فاضل عدالت نے سب کو بڑے تحمل کے ساتھ سُنا۔
ظفر علی شاہ کیس کی تمام سماعتیں کھلے عام ہوئیں، وکلا صاحبان نے حق اور مخالفت میں دلائل دیے، محِبِ وطن حقیقت پسند حلقوں اور پریس نے عدالتِ عظمیٰ کے اس فیصلے کی تعریف کی اور درپیش ملکی حالات میں اسے بہترین فیصلہ قرار دیا۔ تاہم ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے اعتراض کیا۔ ہم نے خالد انور سے پوچھا، آپ بتائیں۔ انہوں نے کہا جو فیصلے میں تحریر ہے:
"Sir, I will not ask Court to do the impossible "
ملاحظہ فرمائیں:
(PLD 2000 SC 869) at page 1031, para 73 (i)
ناممکن کیا ہے کہ نواز شریف کو بحال کر دو۔ پھر کیا طریقہ اختیار کریں؟ خالد انور نے کہا کہ طریقہ یہ ہے بطور پٹیشنرز تو ہم یہی کہیں گے، ہماری پٹیشن کو قبول کریں مگر یہ ناممکن ہے ،آپ یہ کریں جو ہو چکا اسے کنڈون کریں اگر کنڈون نہیں کریں گے تو ملک میں انارکی پھیلے گی۔ ملک میں افراتفری ہو گی جو ہم نہیں چاہتے لیکن ساتھ ہی ایک معقول ٹائم فریم دے دیں کہ یہ کب واپس جائیں گے۔ سینئر ایڈووکیٹ خالد انور نے کہا:
"First, the court condone past and close transactions to avoid chaos and anarchy though they were not valid.
Secondly, the court can condone those actions which are conducive to return to constitutional rule, he however, emphasised that the Court may either allow the petition as a whole or in the alternative, may confine it to a declaration in this case and lay down the time frame for return to democratic rule and holding of elections"
Refer:(PLD 2000 SC 869) at page 1032 (para 74)
میں نے سپریم کورٹ بار کے صدر سے پوچھا، وہ بھی پیش ہوئے تھے۔ اُن کا کہنا تھا، ان کو جانے میں 12مہینے دے دیں۔ میں نے اٹارنی جنرل عزیز اے منشی صاحب سے پوچھا، انہوں نے کہا ہم کوئی ٹائم نہیں دے سکتے کیونکہ یہ بڑا پیچیدہ مسئلہ ہے۔ ہم نے الیکشن کرانے ہیں، انتخابی فہرست کو اپ ڈیٹ کرانا ہے۔ جناب ایس ایم ظفر نامور قانون دان کو بطور ایک ’معاون دوست‘ (amicus curiae)طلب کیا تھا۔ نصرت بھٹو بنام جنرل ضیاء الحق کے فیصلے میں خامی کا ذکر کرتے ہوئے اُنہوں نے یہ درخواست کی تھی کہ ’’اگر عدلیہ جنرل مشرف کو عارضی طور پر اقتدار کے جواز کا حق دار سمجھتی ہے تو اسے اس بات سے مشروط کیا جائے کہ وہ جلد سے جلد افواج پاکستان کو ان کی آئینی ذمہ داری پوری کرنے کیلئے اقتدار سے واپس کرتے ہوئے ایک طے شدہ مدت میں ملک میں انتخابات کرا کے اقتدار عوام کے نمائندوں کے حوالے کرنے کا پابند ہو گا اور عدلیہ وہ غلطی نہ کرے جواُس سے نصرت بھٹو کیس میں ہوئی جب فوج کی واپسی کا مکمل نظام نہیں دیا گیا تھا‘‘۔ Refer: PLD 2000 SC 869: Para 166
اس سے قبل مسلم لیگ کے لیڈر جناب سرتاج عزیزکی طرف سے ایک پٹیشن نامور قانون دان جناب خالد انور کے ذریعے دائر کی گئی کہ اگر انتخابی فہرست کو اپ ڈیٹ نہیں کریں گے تو کروڑوں ووٹرز حقِ رائے دہی سے محروم رہ جائیں گے اور اتنے لوگوں کی حق تلفی سے الیکشن شفاف کیسے ہو سکتے ہیں؟ اس کے بغیر الیکشن کا انعقاد نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ان کو حکم دیں کہ انتخابی فہرستیں اپ ڈیٹ کریں۔ چیف الیکشن کمشنر نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ہمیں اس کام میں دو سال لگیں گے کیونکہ سارے الیکٹورل رول (انتخابی فہرستوں) کو اپ ڈیٹ کرانا ہےDelimitation (حلقوں کی حد بندیاں) کرانی ہے، ہم نے Objectionsلینے ہیں۔ انتخابی فہرست کے اپ ڈیٹ ہونے پر کسی کو اعتراض نہیں تھا۔ میں نے کہا کہ جب ہم اس چیز کا جوڈیشل نوٹس لیتے ہیں کہ انتخابی فہرست اپ ڈیٹ نہیں ہیں اور یہ سب کا مؤقف ہے کہ millions of people will be disenfranchisedتو ہم کیسے کہہ دیں کہ کل الیکشن کرا دو۔ ہمارا تو دل چاہتا ہے کہ فوراً الیکشن کرا دیں۔ مگر انتخابی فہرست اپ ڈیٹ نہ ہونے کے باعث ایسا ممکن نہیں ہے جبکہ چیف الیکشن کمشنر کہتے ہیں انہیں دو سال کا عرصہ درکار ہے۔ اس پر ہم نے کہا کہ ہم تین سال دیتے ہیں اور ان تین سال کا پہلا دن ٹیک اوور سے شروع ہوگا۔ اس وقت ٹیک اوور کو چھ ماہ ہو گئے تھے باقی ڈھائی سال میں الیکشن کرانے کا حکم دے دیا۔ دو سال انتخابی فہرست اپ ڈیٹ کرنے میں لگنے تھے، باقی چھ ماہ میں انتخابی عمل مکمل ہونا تھا۔
عدلیہ نے آئینی حکمت ِعملی کی بنا پر ملٹری کورٹس نہ بننے دیں حالانکہ ہرفوجی دور میں بنیں، سیاسی کارکنوں کو کوڑے پڑے اور اُن کی عزتِ نفس مجروح ہوئی۔ میں نے مارشل لا والوں کو قائل کیا کہ عدلیہ کا نظام بڑا واضح اور مضبوط ہے، اس کی موجودگی میں کسی دوسرے نظام کی گنجائش ہے نہ ضرورت۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)