• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اردو شاعری میں ’’ملاقات‘‘ بہت اثر انگیز لفظ ہے۔ یہ ایک لفظ ہی کتنے حسین مناظر باندھ دیتا ہے۔ اس کٹھن مسافت پر پہلے دوجے قدم اٹھانے والوں کو باغ میں موجودگی کا احساس ہونے لگتا ہے تو رواں دواں مسافرانِ عشق و محبت کو محسوس ہوتا ہے کہ مخالف جانب سے بہار بھی اسی تیزی سے ہی آ رہی ہے، جس تیزی و بے خودی سے ان کے قدم گلوں و غنچوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ کسی شعر یا مصرعے میں ملاقات کا ہونا یقینی ٹھہر جائے تو گویا حسنِ تمنا بغلگیر ہونے کو ہے، کے خواب نظر آنے لگتے ہیں۔ ایسی ہی خواب گری میں محو داغ دہلوی نے یہ شعر داغا تھا:

راہ پر ان کو لگا لائے تو ہیں باتوں میں

اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں

’’ملاقات‘‘ کا اثر، تمنا اور رنگ کوئی شاعری تک ہی محدود نہیں ہماری روایتی سیاست میں بالخصوص اور دنیا بھر کی عملی سیاست میں بالعموم ’’ملاقات‘‘ سیاسی اہداف کی کوشش کا لازمہ ہے۔ پاکستان میں اسٹیٹس کو (نظام بد) کی مکاری میں ملاقات اور ملاقاتوں کی آئوٹ آف دی وے گٹھ جوڑ جیسی شکل، پھر خفیہ ملاقاتوں میں ڈیل ویل پر آمادگی، کامیاب یعنی سیاست دانوں اور حواریوں کی ہی ڈلیور کرنے والی سیاست کی مطلوب کامیابی سمجھی جاتی ہے۔ سیاست دانوں کی عوام سے چوری چوری منافع بخش خفیہ ’’ملاقاتیں ہونا‘‘ ہی پہلی کامیابی ہوتی ہے، ان سے کچھ یا مطلب کا زیادہ سے زیادہ نکالنا کوئی آسان نہیں ہوتا، کیونکہ شوقِ حریت پسندی جس کا مظاہرہ اپوزیشن میں رہ کر ’’ووٹ کو عزت دینے‘‘ کیلئے لازم ہوتا ہے، لیکن غیر جمہوری سیاسی حاجتوں پر قادر کو ہرگز گوارا نہیں ہوتا۔ شدت سے مطلوب اس کیلئے ملاقات کو خفیہ رکھنا اور ہونے کے دوران اور آگے پیچھے شوق حریت پسندی کا مظاہرہ بھی لازمی سیاسی ضرورت سمجھی جاتی ہے۔ خواہ یہ ہزاروں میل کی دوری کا فائدہ اٹھا کر بے فکری سےکھل کھلا کر لندن ہی سے کیا جائے۔ ہماری سیاست میں ان کھلے عام اور خفیہ ملاقاتوں سے جماعتی اتحاد، تحریکیں، دھرنے، ریلیاں، ڈیل، این آر او اور مک مکا جیسی سیاسی پروڈکٹس برآمد ہوتی ہیں۔ ملکی سیاسی تاریخ میں اللہ بخشے نوابزادہ نصر اللہ خان اس اندازِ سیاست کے گرومانے جاتے تھے۔ آج بھی ہمارے آسمانِ سیاست پر شیخ رشید اور مولانا فضل الرحمٰن وہ چمکتے دمکتے ستارے ہیں جنہوں نے اس فن سیاست میں یکتا ہونے کیلئے نواب صاحب سے فیض پایا۔ شیخ صاحب کا معاملہ یہ ہے کہ وہ بدستور صاحب اقتدار ہیں اور مولانا صاحب پہلی مرتبہ اقتدار سے باہر ہوگئے۔ ان کی پاور بیس پر خان اعظم نے حقیقی سیاسی قبضہ کرلیا۔ ملاقاتوں کی زیادہ ضرورت تو اپوزیشن کو ہوتی ہے، سو شیخ رشید ن لیگ کے شوقِ حریت پسندی کی حقیقت کو طشت ازبام کرنے پر کمر باندھے ہوئے ہیں، ادھر ن لیگ کی مفاہمتی قیادت کی کسی ملاقات پر شیخ صاحب کبھی ’’یاری‘‘ میں چپ بھی سادھ لیتے ہیں اگر ن لیگی انقلابی قائد اور حواریوں کو ن لیگی مفاہمت کے ساتھ ساتھ نئے نظریاتی گروپ کو ذرا سا بھی انقلابی رنگ میں دیکھتے ہیں تو وہ مکمل بےرحمی سے بیچ چوراہے بھانڈا پھوڑ دیتے ہیں۔ خفیہ ملاقاتوں کا برقع اترتا ہے تو میڈیا میں ایک طوفان مچ جاتا ہے۔ میڈیا ہی کے حوالے سے یہ بہت ستم ہوا کہ پرنٹ اور آن ایئر کی بڑی قیمتی جگہ اور وقت اس پر صرف ہوگیا کہ یہ خبر کھودی جائے کہ ن لیگی اسیر قائد کے دوران تفتیش و قید و باہر نکلنے کا اصل محرک کیا ہے اور میاں صاحب بیمار ہیں یا تندرست؟ حالانکہ یہ بات میاں صاحب کو باہر نکلنے کی آرام دہ راہ کی فراہمی پر واضح تھی کہ وزیر اعظم عمران خان نے ’’انسانی ہمدردی‘‘ کی بنیاد پر یہ ہونے دیا، وہ اب تک وضاحت کرتے ہیں کہ میں تو مکمل قائل ہوگیا تھا کہ ان کی زندگی خطرے میں ہے، ایسے میں انہیں بغرض علاج باہر نکلنے دینا چاہئے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے نکلنے سے آج تک ن لیگی بہت طنزیہ انداز میں ’’حکومت کی اجازت‘‘ کی ڈھال وزیراعظم کی ’’انسانی ہمدردی‘‘ کو نظر انداز کرکے استعمال کرتے ہیں، لیکن علاج کی بجائے میاں صاحب کی سیاست، پھر انداز سیاست کی خبریں آنے لگیں۔ ’’انسانی ہمدردی‘‘ کے مقابل سلیکٹڈ کی رٹ غیر ضروری، لغو اور بالکل بے وقت تھی۔ پھرشوق حریت پسندی کا ایسا اظہار اضطراب کہ ن لیگئے بھی پناہ مانگ رہے ہیں،ادھر بھارتی میڈیا میں پاکستان مخالف ایک اودھم مچا ہوا ہے، مولانا فضل الرحمٰن کے کامیاب ملاقاتی کھیل اور میاں صاحب کا قوم بشمول ن لیگ کیلئے پریشان کن خطاب، مولانا صاحب کی سیاسی کمائی اور (ماشااللہ) ن لیگ کے تندرست قائد کے شوق حریت پسندی کو لے ڈوبا۔ اب یہ بحث بحث نہیں رہی کہ جنرل باجوہ کے ’’دیرینہ دوست‘‘ زبیر صاحب کی ملاقاتیں ذاتی تھیں یا میاں صاحب اور محترمہ مریم کیلئے ان ہی کے ایما پر ہوئیں، ٹاک شوز پر ان لیگی وکلا ملاقاتوں کے باجواز اور فقط سماجی ہونے کی وکالت تو بہت کریں گے اور پورا زور لگائیں گے، لیکن عوام اور خود ن لیگی رہنما اور کارکن اپنے سوال اور ملتے جوابات سے اپنی رائے پر یکسو ہوگئے جو اور جیسا ن لیگی ابلاغ ہوا اور جو خطاب میاں صاحب سے کرایا گیا اور انہوںنے بھی شوق حریت پسندی میں کرڈالا، اس پر عوام کی رائے بھی قائم ہوگئی اور جذبات بھی مجروح ہوئے۔ حیرت کی اپنی ڈگری ہے۔ یہ تو درست ہے کہ ہمدم دیرینہ سے ملاقات، مسیحا سے ملاقات سے بھی بہتر نتائج دے سکتی ہے، اس کی تائید بھی داغ دہلوی نے ہی کی ہے۔

اے ذوق کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا

بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے

مسیحا و خضر کے ترجمان نے زبیر صاحب کی ’’ذاتی ملاقات‘‘ کو میاں صاحب اور مریم صاحبہ کے ایما و درخواست کی ملاقات قرار دے کر ن لیگی حریت پسندی کے لندنی ماڈل کو بخ سے اڑا دیا۔ مجھے تو بس مولانا صاحب کی فکر ہے کہ اب ان کا کیا بنے گا؟

تازہ ترین