آدم کا خلا سے نکلنا اور مخلوق بن کر بھٹکنا نسلِ انسانی کا مقدر ٹھہرا کیونکہ اسی نسلِ انسانی کے کچھ شہ زور سورج کے گرد گھومتے زمین سیارے پر اپنے لئے تو ایک جنت کی تعمیر کی آرزو رکھتے ہیں لیکن اپنے سے کمزور اور حقیر مخلوق کے لئے جہنیں وہ آدم زادہی نہیں مانتے ایک دھکتا ہوا جہنم تیار کرتے رہتے ہیں اور یہ کمزور ناتواں مخلوق ان کے تعمیر شدہ جہنم کا ایندھن بنتی رہتی ہے۔جس طرح پرندے سخت موسموں کے آنے سے قبل معتدل موسموں کی سرزمینوں کی طرف کوچ کر جاتے ہیں اسی طرح ہزاروں سالوں سے انسان اپنے ملکوں کے ناگفتہ بہ حالات میں دوسرے ملکوں کی جانب نقل مکانی پر مجبور ہوتے رہتے ہیں۔ جب ان کی زمینی جنتیں کسی شہ زور کے ہاتھوں اجڑتی ہیں تو وہ امن و سکون کی جنت کی تلاش میں کسی دوسری سرزمین کی طرف نکل پڑتے ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اپنی جنت اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں لٹ رہی ہوتی ہے اور ’اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘، کے مصداق نہ گھر رہتا ہے نہ ہی چراغ کیونکہ ہوا کا رخ بھی یہ دعویٰ ہے کہ ”چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں“ بہر حال وطن ہو یا بے وطنی جنت کی آرزو زندگی میں بھی رہتی ہے۔ اپنے آس پاس امن و سکون ہو اور روای چین کی بنسی بجائے، کس کا دل نہیں چاہتا کہ …
لذت سرود کی ہو چڑیوں کے چہچہوں میں
چشمے کی شورشوں میں باجا سا بج رہا ہو
آزاد فکر سے ہو، عزلت میں دن گزاروں
دنیا کے غم کا دل سے کانٹا نکل گیا ہو
لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ جنت اور دوزخ کے بیچ میں عالمِ برزخ بھی ہے اور اس مقام پر نسل آدم کی ایک لمبی قطار اپنی تقدیر کے فیصلے کا صدیوں سے انتظار کر رہی ہے۔جہاں تک جنت کی حقیقت کا سوال ہے تو چچا غالب نے تو کہہ ہی دیا تھا جسے آپ ان کی پیشگوئی سمجھ سکتے ہیں
”ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
ویسے جنت کے خیال سے ہمیں بھی یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ مقامِ برزخ سے گزر کر جنت یا دوزخ میں داخل ہونے کا دارو مدار تو اعمال نامہ پر ہی ہوگا اور یہ بات تو وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ جنت میں داخلے کی شرائط پوری کرنے والوں کی تعداد بہت تھوڑی ہوگی جبکہ دوزخ میں تو شکل دیکھ کر ہی دھکا دے دیا جائے گا کیونکہ دوزخیوں کا اعمال نامہ تو صورت پر ہی لکھا ہوگا۔ داروغہ جہنم کو ان کے اعمال نامہ کی جانچ پڑتال کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ویسے بھی اس بیچارے کے پاس کام زیادہ اور وقت کم ہوگا۔ ہمیں یہ بھی خیال آتا ہے کہ مملکتِ دوزخ کے رقبے کی وسعت کی بھی کوئی حد کوئی گنجائش تو ہوگی اور جب یہ گنجائش اور جگہ باقی نہ رہے گی تو باقی دوزخیوں کو عالمِ بزرخ میں واپس بھیج کر انتظار کے لئے کہا جائے گا تاکہ جب پہلے والے دوزخ کے مکین اپنی مدت پوری کرکے نکلیں تو پھر بقیہ ماندہ کو برزخ سے بلا کر مکاں الاٹ کئے جائیں۔ دوسری طرف جنت کی وادیوں میں دودھ کی بہتی نہروں کے کنارے لاتعداد خالی پلاٹوں اور بے شمار خالی مکانوں پر برائے فروخت اور کرائے کیلئے خالی کے بورڈ خریداروں اور مکینوں کے انتظار میں آویزاں ہوں گے۔ لیکن وہاں ڈالر، پونڈز یا ریال تو کام آنے سے رہے لوگوں کے سروں پر اپنے اپنے اعمال کی گٹھریاں رکھی ہوں گی اور ان گٹھریوں میں گناہوں کے کوئلے، پتھر اور نیکی کی اشرفیاں بندھی ہوں گی اور بھائی لوگ سوچ رہے ہوں گے کاش چکن برگر میں خنزیر کے گوشت کی ملاوٹ نہ کی ہوتی تو دودھ کی نہر کنارے جنت میں دو کنال کا پلاٹ تو اپنا ہوتا۔ اگر پاکستان میں بچوں کو کیمیکلز ملا نقلی اور ملاوٹی دودھ نہ پلایا ہوتا اور مردار اور بیمار جانوروں کا گوشت سپلائی نہ کیا ہوتا تو آج گٹھری میں بندھے کوئلوں اور پتھروں کی بجائے نیکی کی کچھ اشرفیاں ضرور برآمد ہوجاتی جن سے خیابانِ بہشت میں ایک ملٹی سٹوری پلازہ خریدنے کی امید ہوجاتی ہے۔ کچھ راجہ اور زردار ٹائپ لائن میں لگے تاسف سے ہاتھ مَل رہے ہوں گے کہ کاش اگر راجا رینٹل نہ ہوتا تو رینٹ پر ہی سہی ہیون سکوائر میں ایک فلیٹ ہی مل جاتا۔ ٹین پرسنٹ افسرہ سر جھکائے پچھتا رہے ہوں گے کہ اگر دنیا میں دس فیصد کے چکر میں نہ پڑے ہوتے تو کم از کم وادی جنت کے شیئرز میں فائیو پرسنٹ کے حصہ دار ہوتے اور آج یوں
ٹکے ٹکے گنتے دھکے نہ کھاتے پھرتے۔ محکمہ صحت کے انچارج اعمال نامہ کی بھاری گٹھری کو سر پر سنبھالے کھڑے پچھتا رہے ہوں گے کاش سرکاری ادویات کو پرائیویٹ سٹورز پر فروخت کرنے کی بجائے غریب مریضوں کو فراہم کردی جاتیں تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ سیاستدان سوچ رہے ہوں گے لوٹ کھسوٹ کرکے اور عوام کا خون چوس کر، ٹیکس چوری کرکے سوئٹزرلینڈ کے بینک نہ بھرے ہوتے اور لندن اور پیرس میں ایک بنگلہ اپنا بھی ہوتا اور وہ طالبانِ بہشت جنہوں نے جنت کی کنجی سمجھ کر بارودی جیکٹ پہنی اور خود کو پھاڑ کر سیکڑوں بے گناہوں کے لہو سے جامِ شہادت نوش کیا تھا۔ ان کو حریت ہوگی کہ ان کی شکل دیکھتے ہی داروغہ جنت نے بنا پاسپورٹ ویزا چیک کئے داروغہ دوزخ کو آواز لگائی اور آؤ دیکھ نہ تاؤ داروغہ نے جہنم کی کوٹھری کی چابی تھما کر شہرِ دوزخ کے سب سے غلیظ محلے کی تنگ گلی میں دھکیل دیا۔ کچھ ایسے بھی حضرات ہوں گے جو داروغہ دوزخ سے بحث و تکرار میں الجھے نظر آئیں گے اور یہاں معاملہ پاکستان کے آئین کی شق 62/63 اور نظریہ پاکستان کی توفیح و تشریح سے کم نوعیت کا متنازع نہیں ہوگا۔ وہ اپنے اعمال نامہ میں تحریر کچھ نکات پر بھی معترض ہوں گے جن کے متعلق ان کا استدلال یہ ہوگا کہ
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی اپنا کوئی تادم تحریر بھی تھا
یہ وہ لوگ ہوں گے جو پنج وقتہ نمازی، روزے داران، حاجی اور زکوٰة ادا کرنے والے ہوں گے اور ان سارے ارکانِ شرعی کی ادائیگی کے بعد پروانہ جنت کے حصول پر کامل یقین رکھتے ہوں گے ۔ کیا ہوا جو اگر حقوق العباد کا مطلب ان کی سمجھ میں کبھی نہیں آیا اور عام انسانی تعلقات میں تو پڑوسیوں اور نہ ہی قریبی رشتہ داروں کا حق ادا کیا بلکہ خاندانی اور معاشرتی سیاست میں وہ داؤ پیچ کھیلے کہ جارج بش کی امریکی سیاست بھی دانتوں میں انگلی دبائے عش عش کرتی رہ گئی۔
عالمِ بالا کے برزخ سے پہلے انسانوں کو دنیا میں رہتے ہوئے عالم برزخ کے مقام سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی جلتی ہوئی جنتوں کو چھوڑ کر بیرونِ ملک کے عافیت کدوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ امیگریشن کا داروغہ ان کے اعمال نامہ کی جانچ پڑتال کرتا ہے اور اسے ایسے ہی ہزاروں ناکردہ گناہوں ں کے سزاداروں کیا عمال نامہ کی فائلوں کے گوداموں میں پھینک کر انتظار کے برزخ کا دروازہ کھول کر اس جنت کی حقیقت سے دل بہلانے کا عارضی ٹکٹ تھما دیتا ہے اور پھر سالوں بعد ان پر جنت کی حقیقت آشکار اس طرح ہوتی ہے کہ ”نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم“… ”نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے“ عزت نفس اور اپنی شناخت کے ساتھ سکون و راحت کی جنت کی تلاش میں نسلیں بھٹکتی رہتی ہیں اور تیسرے درجہ کا شہری ہمیشہ عالمِ برزخ میں رہتا ہے۔