• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقوامِ متحدہ کی 75ویں جنرل اسمبلی میں عالمی رہنماؤں کی تقریروں سے اس امر کی واضح نشاندہی ہو گئی ہے کہ دنیا تصادم اور ٹکراؤ کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ نے خود عالمی برادری کو ’’سرد جنگ‘‘ کے خطرے سے خبردار کر دیا ہے۔ بدلتی ہوئی اور تصادم کی جانب جاتی ہوئی اس نئی دنیا میں پاکستان کے لئے بڑے چیلنجز ہیں۔ پاکستان نہ صرف عالمی بلکہ علاقائی تنازعات کا بھی ’’فلیش پوائنٹ‘‘ بن سکتا ہے اور یہی بات سب سے زیادہ تشویش ناک ہے۔ نئی سرد جنگ کے عہد کا آغاز ہو چکا ہے۔ امریکا اور چین ایک دوسرے کے آمنے سامنے آچکے ہیں۔ جنرل اسمبلی سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چین کے صدر شی جن پنگ کی تقریروں کے بعد کسی کو نئی سرد جنگ کے بارے میں شک و شبہ میں نہیں رہنا چاہئے۔ چین کے صدر نے اپنے خطاب میں اسے ’’تہذیبوں کے تصادم کے خطرات‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ چینی صدر نے ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کی امریکی اصطلاح دنیا کو یہ باور کرانے کے لئے استعمال کی ہے کہ پہلی سرد جنگ کا عہد ختم ہونے کے بعد امریکا نے ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کے نظریہ کی آڑ میں دنیا کو جنگوں اور خونریز داخلی ٹکراؤ میں جھونک دیا۔ صدر شی جن پنگ نے ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ سے بچنے کے لئے یہ حل بتایا کہ کورونا کی وبا پر سیاست نہ کی جائے، اس کے لئے کسی کو بدنام نہ کیا جائے اور دنیا متحد رہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کسی لگی لپٹی کے بغیر اور سفارتی آداب اور الفاظ کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنے خطاب میں کورونا کے پھیلاؤ کا ذمہ دار چین کو ٹھہرایا اور اسے ’’چین کے وائرس‘‘ کا نام دیا۔ صدر ٹرمپ نے کرہ ارض کے ماحول کی تباہی کی ساری ذمہ داری بھی چین پر ڈال دی۔ اس عالمی فورم پر دونوں رہنماؤں نے جو بیانیہ اختیار کیا، اس سے چین اور امریکا کے مابین سرد جنگ کا معاملہ اب ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ چین امریکا تنازعات نہ صرف نئی عالمی صف بندی کا سبب بن رہے ہیں بلکہ علاقائی اور عالمی تضادات میں بھی شدت پیدا کر رہے ہیں۔ گزشتہ سات دہائیوں سے امریکی اتحادی پاکستان اب اپنی تاریخ کے ایک دوراہے پر ہے، جہاں سے کسی ایک راستے کا انتخاب آسان نہیں۔ چین کے ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ کے منصوبے کے اہم حصہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کو پاکستان میں گیم چینجر کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ اسی پر امریکا اور چین کا ٹکراؤ ہو سکتا ہے اور پاکستان اس حوالے سے فلیش پوائنٹ ہے۔ جنرل اسمبلی میں سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلیمان اور ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی کے خطابات سے بھی ایک اور علاقائی تصادم کی واضح نشاندہی ہو گئی ہے، جو عالمی سطح کے تصادم میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ اس کے مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا میں کئی فلیش پوائنٹس ہیں، جن میں سے ایک پاکستان بھی ہے۔

پاکستان کے لئے سب سے زیادہ خطرناک چیلنج کی نشاندہی ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں کی ہے۔ انہوں نے کشمیر اور فلسطین کے مسئلوں کے حل نہ ہونے کو عالمی اداروں کی ساکھ خراب ہونے کا سبب قرار دیا ہے اور یہ خبردار کیا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ دو عالمی طاقتوں کے مابین ٹکراؤ کا سبب بن سکتا ہے۔ بھارت نواز سابق وزیراعلیٰ مقبوضہ کشمیر فاروق عبداللہ نے اپنے حالیہ انٹرویو میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کے حوالے سے جو بات کہی ہے، وہ مسئلہ کشمیر کی نئی جہتوں کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ فاروق عبداللہ کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے لوگ بھارت کے ساتھ رہنے کے بجائے چین کی حکمرانی قبول کرنے کو تیار ہیں۔ فاروق عبداللہ کی اس بات سے نہ صرف بھارتی مقبوضہ کشمیر کے عوام کے رحجانات کا پتا چلتا ہے بلکہ اس معاملے پر چین کے بڑھتے ہوئے کردار کی بھی نشاندہی ہوتی ہے۔ چین اور بھارت کے مابین بڑھتے ہوئے فوجی تصادم کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ کشمیر ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبے کا نکتہ آغاز ہے۔ اب دیگر عوامل مسئلہ کشمیر پر ہماری حکمت عملی پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

عالمی رہنماؤں کے جنرل اسمبلی سے خطابات کا تجزیہ کیا جائے تو پاکستان کیلئے نئے چیلنجز کی تشکیل پذیری ہوتی ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان میں داخلی اور سیاسی استحکام اور قومی یکجہتی کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔اس وقت پاکستان سیاسی تصادم اور عدم استحکام کی راہ پر گامزن ہے۔ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے مابین ہزار ہا اختلافات ہوں گے لیکن پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی تشکیل کے حقیقی محرکات پر سب کا اتفاق ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا یہ خدشہ کسی حد تک درست ہے کہ آئندہ مارچ میں سینیٹ کے انتخابات میں اگر پاکستان تحریک انصاف کو اس ایوان بالا میں اکثریت حاصل ہو گئی تو کچھ غیرسیاسی قوتوں کا پاکستان میں پارلیمانی جمہوری نظام کو ختم کرنے اور صدارتی نظام نافذ کرنے کا منصوبہ کامیاب ہو جائے گا۔ اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتیں پارلیمانی جمہوری نظام کے خاتمے کو پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرناک تصور کرتی ہیں۔ دوسری طرف پاکستان گلگت بلتستان کو پاکستان کے آئینی دائرہ اختیار میں لانے کے لئے پیش قدمی کر رہا ہے۔ اس پر عالمی طاقتوں کو تحفظات ہو سکتے ہیں کیونکہ اس علاقے کو ایک عالمی سامراجی اسکیم کے تحت ایک ’’بفر‘‘ (Buffer) کے طور پر قائم رکھا گیا ہے۔ ہمارے کسی فیصلے سے یہ اسکیم متاثر ہو سکتی ہے۔ امریکا اسے چین کے حق میں فیصلہ قرار دے سکتا ہے۔ پاکستان کو نئے خطرات اور چیلنجز سے نمٹنے کے لئے اجتماعی سیاسی دانش کا ساتھ دینا ہو گا اور تصادم سے گریز کی پالیسی اختیار کرنا پڑے گی۔ ورنہ ہوائیں ہی کریں گی فیصلہ روشنی کا۔ خاکم بدہن۔

تازہ ترین