• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے ایک رہبر ہیں، اُنہوں نے ایک نکتہ اُٹھایا کہ برصغیر پاک و ہند پر انگریزوں نے تقریباً سو سال حکومت کی، انگریز پہلے پہل ایک کمپنی کی شکل میں وارد ہوئے، اُس کمپنی میں ملے جلے لوگ شامل تھے، اُنہوں نے اُس کمپنی کی سرپرست مادر ملکہ کو بنایا۔ برصغیر میں آنے والے گورے کاروباری، تجارتی لوگ، بدمعاش اور معالج قسم کے تھے اور وہ لوگ ایک نئی دنیا فتح کرنے نکلے تھے۔ ان سب کو اپنے دیس میں آرام و آسائش میسر نہ تھا۔ بلاشبہ پہلے پچاس سال تو قبضہ کرنے اور اپنے آپ کو منوانے میں لگ گئے۔ پھر کمپنی کی حکومت نے چلنا شروع کر دیا تو ان کو خیال آیا کہ ان محکوموں کے لئے بھی کچھ کیا جائے تاکہ ان کو قابو میں رکھنا آسان ہو پھر تمام ملک میں سڑکوں کا جال بچھایا گیا، پولیس کی چوکیاں بنائی گئیں، اسپتال بنائے گئے اور تعلیمی اداروں کی بنیاد رکھی گئی، عجائب خانے اور چڑیا گھر بھی بنائے گئے، برصغیر میں فوج مقامی لوگوں کی تیار کی گئی اور برطانیہ کی ایک نوآبادی قائم کی گئی۔ بازار اور منڈی کے لئے اصول اور قواعد تیار کئے گئے، ملک کے طول و عرض میں رابطے کے لئے ریل کا جال بچھایا گیا اور انہوں نے اپنے آرام اور عوام کی بہبود کے لئے خاصے کام کئے۔ ایک زمانہ میں جب ملکہ برطانیہ کا عروج تھا، ان کی سرکار کا سورج چوبیس گھنٹے دنیا میں طلوع رہتا تھا۔ برطانیہ نے برصغیر پر جو پیسہ لگایا وہ سب اس زمین سے لوٹا گیا تھا۔ آج کا اہم سیاسی محاورہ ’’جو کھاتا ہے، وہ لگاتا بھی ہے‘‘، ملکۂ برطانیہ کی وجہ سے مقبول ہوا۔ انہوں نے خوب کھایا اور خوب لگایا بھی۔

میرے محترم رہبر نے ایک نکتہ یہ بھی اُٹھایا تھا کہ برطانیہ نے برصغیر کو ایک بڑا ملک بنایا اور قانون اور اصول کی بنیاد بھی رکھی۔ ان قوانین اور اصولوں کی وجہ سے برصغیر کی دولت سے اپنے ملک میں لوگوں کو آرام اور آسائش مہیا کی گئی اور ملکہ نے مشاورت سے اپنے یہاں جمہوری نظام کو بہتر کیا۔ ان کی سیاست بھی اتنی شفاف نہ تھی، وہ برصغیر کو کوئی سیاسی نظام نہ دے سکے۔ بلکہ سیاست کو مذہب اور فرقہ بندی میں بھی شامل کر دیا گیا۔ انہوں نے برصغیر کے پیسے سے اپنے ملک میں اداروں کو مضبوط کیا اور ایک عظیم ملک بنایا مگر برصغیر کو ایک ملک تو بنا دیا مگر معاشرتی برائیوں کے لئے کچھ بھی نہ کیا اور رشوت ستانی کو فروغ بھی دیا۔ وہ رشوت کا نظام ابھی تک پاکستان میں خوب پھل پھول رہا ہے۔ اس کا کوئی علاج بھی نظر نہیں آتا اور سیاست میں اہم کردار بھی ادا کر رہا ہے۔

برصغیر کی آزادی کے بعد بھی برطانیہ نے دونوں ملکوں کو اور اپنی نو آبادی کو نظرانداز نہیں کیا اور ایک ادارہ بنایا، اس کا نام اس نے کومن ویلتھ Common Wealthرکھا اور ہم پر احسان کیا کہ مشترکہ دولت ہمارے درمیان رابطے کا ذریعہ رہے گی۔ ملکہ برطانیہ اب بھی بہت سے کاروباری اداروں کی مالک ہیں پھر برطانیہ نے ہمارے سیاسی اور فوجی نظام میں بھی دخل اندازی جاری رکھی۔ پاکستان میں برطانیہ کے قوانین ابھی تک رائج ہیں اور مقامی طور پر ان پر عمل ہو رہا ہے جبکہ برطانیہ نے اپنے ہاں سب کچھ بدل دیا مگر اب ان کی سیاست میں بھی ملاوٹ نظر آ رہی ہے۔

گزشتہ چند برسوں سے ہمارے سیاسی لوگوں نے برطانیہ میں بھی سرمایہ کاری شروع کردی ہے، برطانیہ میں ان کو تحفظ بھی مہیا کیا گیا ہے اور دوسرے کچھ لوگوں نے برطانیہ میں سیاسی پناہ بھی حاصل کرنی شروع کر دی ہے۔ جس کی بنیاد مذہب اور نظریات کے اختلاف پر رکھی گئی اور برطانیہ نے ان کو مکمل تحفظ بھی دیا، اُن لوگوں نے برطانیہ میں بیٹھ کر پاکستان کی سیاست کو داغدار کرنا شروع کیا، یہ لوگ ایک عرصہ کے بعد برطانیہ کے شہری بھی بن گئے۔ برطانیہ کے قانون کے مطابق وہ دہری شہریت رکھ سکتے تھے اور ان سب نے رکھی اور پاکستان کی سیاست اور ریاست میں من مانی کرنے کی کوشش کی۔ جو لوگ پاکستان میں مجرم تھے، اُن کو برطانیہ نے تحفظ دیا اور اس وجہ سے پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری نظام قابلِ اعتبار نہ رہا۔

اس وقت پاکستان کی سیاست شدید خلفشار سے دوچار ہے، ملک میں عمران خان کی سرکار ہے اور اس کے اداروں کیساتھ تعلقات بہترین ہیں۔ بھارت کے ساتھ معاملات میں سرکار اور فوج کا نقطہ نظر ایک ہے۔ عمران خان ملک میں کرپشن کا خاتمہ چاہتا ہے، ہمارے سیاسی لیڈر اور حزبِ اختلاف کرپشن کے معاملات پر عمران خان کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں۔ ادارے بھی اس معاملہ میں یکسو نہیں اور خرابی بھی یہاں سے شروع ہوتی ہے، ایک پاکستانی سیاست دان سابق وزیراعظم اور سزا یافتہ شخص برطانیہ میں بیٹھ کر بھاشن دیتا ہے کہ کچھ طاقتوروں نے انتخابات میں مداخلت کی جبکہ وہ خود بھی اُن کا مرہون منت رہا ہے خیر یہ سب کچھ پاکستان کے لئے بہت ہی خطرناک ہے، بھارت پاکستان پر کسی بھی وقت حملہ کر سکتا ہے، پاکستان چینی دوستوں کو مایوس کر رہا ہے، امریکہ پاکستان کی مدد کرنا چاہتا ہے مگر ٹرمپ رکاوٹ ہے۔ ٹرمپ اگلا الیکشن جیت نہیں سکتا اور اتنا عرصہ پہلے امریکہ کچھ کر نہیں سکتا۔ صورتحال یہ ہے کہ عمران کے پاس بہت کم وقت ہے، پہلے دو سال تو تبدیلی کا سوچنے میں گزر گئے اب نئی صف بندی ہو رہی ہے۔

اس سال کے آخری چند مہینے اس ملک کے لئے بہت ہی اہم ہیں۔ عمران خان تاریخ میں نام تو بنا چکا ہے مگر یہ میچ اس کے ہاتھ سے نکلتا نظر آ رہا ہے۔ اس کی منصوبہ بندی میں ہمارے غیرملکی مہربان مسلسل رکاوٹ ڈال رہے ہیں اور اس کو اندازہ ہے کہ ملک کے اندر تبدیلی کے لئے اس کی ٹیم تیار نظر نہیں آ رہی۔ عوام اور سیاستدان دونوں ناقابلِ اعتبار ہو چکے ہیں۔ عوام کے نزدیک نظریہ اور قانون بےمقصد ہیں اور سیاست دان مفادات کے غلام نظر آ رہے ہیں اور اس ساری صورتحال میں ادارے بھی پریشان ہیں اور کسی کو معلوم نہیں کہ سیاست اور اداروں کے لئے بیرون ملک دوست کیا کر سکتے ہیں۔ سب کچھ بیرون ملک ہی طے ہو رہا ہے، اس لئے اعلیٰ عدالتیں اہم فیصلے کرنے میں تاخیر کر رہی ہیں، کیا ہوگا؟ کوئی کچھ بھی بتا نہیں سکتا ہے۔ عوام کے پاس جانے سے بھی خطرہ ٹلتا نظر نہیں آتا۔ خطرہ سب کو ہے مگر فکر صرف اپنی اپنی ہے۔

تازہ ترین