• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی تا حیدرآباد 136 کلو میٹر ایم 9 موٹر وے پر بروقت طبی یا ریسکیو کی سہولت موجود نہیں

حیدرآباد ( بیورو رپورٹ) حیدرآباد کراچی موٹر و ے ایم 9پر ایمر جنسی اور حادثے کی صورت میں کسی قسم کی بروقت طبی یا ریسکیو کی سہولت موجود نہیں، حادثے کی صورت میں فوری طور پر طبی سہولت کے لئے جامشورو، حیدرآباد یا کراچی کے اسپتال میں زخمیوں کو منتقل کیاجاتا ہے،موٹر وے پر صرف لاشیں اٹھانے کے لئے سرکاری محکمے اور نجی فلاحی ادارے کی ایمبولینس موجود ہیں،کیمرے غیر فعال ہیں جبکہ بروقت اطلاع کے لئے کوئی ٹیلی فونک بوتھ کی سہولت بھی موجود نہیں ہے،موٹر وے سمیت دیگر سرکاری اور ریسکیو کے لئے سب سے پہلے خبر میڈیا اور سوشل میڈیا سے ملتی ہے۔ تفصیلات کے مطابق حیدرآباد سے کراچی 136سے زائد کلومیٹر سے زائد ایم 9موٹر وے پر سہولیات کا فقدان ہے۔کسی قسم کی ایمرجنسی اور حادثے کی صورت میں موٹر وے اور ایف ڈبلیو او کی جانب سے بروقت طبی امداد اور ریسیکو کے لئے کوئی سہولتموجودنہیں ہے،ایم 9موٹر وے پر لاشیں اٹھانے کے لئے سرکاری اور فلاحی اداروں کے پاس صرف ایمبولینسیں ہیں جن کے ذریعے لاشوںاور زخمیوں کو اٹھاکر کئی کلومیٹر دور جامشورو، حیدرآباد یا کراچی کے اسپتال منتقل کیاجاتا ہے، جس کے نتیجے میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں۔ حیدرآباد سے کراچی ٹول پلازہ پر 2سے 3جگہ ٹول ٹیکس وصول کیا جاتا ہے، لیکن کسی حادثے کی صورت میں ٹیکس وصول کنندہ اداروں کی جانب سے فوری طبی اور ریسکیو کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہے،گزشتہ روز وین میں آتشزدگی کے واقعہ میں موٹر وے سمیت دیگر سرکاری اور نجی فلاحی اداروں کو نیوزچینل یا سوشل میڈیا کے ذریعہ اطلاع پہنچی، جس کے بعد فائر بریگیڈ اور ایمبولینس جائے وقوعہ پر پہنچیں، تاہم ذرائع کے مطابق ایم نائن موٹر وے پر نصب زیادہ تر کیمرے غیر فعال ہیں یا نصف سے زائد جگہوں پر نصب ہی نہیں ہیں، جبکہ موٹر وے پر کوئی فوری طورپر امداد کے لئے سینٹر قائم نہیں ہے، ٹراما سینٹر برائے نام قائم ہے جوکہ غیر فعال ہے جس کی وجہ سے زخمیوں کو حیدرآباد یا کراچی منتقل کیاجاتا ہے۔ ایم نائن موٹر وے پر تاخیر سے ریسکیو ٹیم کے پہنچنے اور کئی کلو میٹر دور زخمیوں کو منتقل کرنے کی وجہ سے قیمتی جانوں کا ضائع ہونا معمول بن گیا ہے۔ شہریوں نے اعلیٰ حکا م سے مطالبہ کیا ہے کہ کراچی سے حیدرآباد کوئی 136سے زائد کلومیٹر کے راستے میں 2سے 3طبی سینٹر قائم کئے جائیں یا جو برائے نام قائم ہیں ان کو فعال کیا جائے۔

تازہ ترین