• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سرکار وقت کی خدمت میں دست بستہ کچھ عرض کرنے سے پہلے میں ایک ایسے شخص کی بپتا بیان کرنا چاہتا ہوں جو اب تک تو خوشحال اور آسودہ زندگی گزار رہا ہے مگر عنقریب بیروز گار کر دیا جائیگا۔ اعلیٰ ہنر مند ہونے کے باوجود وہ ملازمت سے محروم کر دیا جائیگا۔ اسکے بچے اچھے اسکول میں پڑھتے ہیں۔ بیروزگار ہو جانےکے بعد وہ اپنے بچوں کو اچھے اسکول میں پڑھانے کے اخراجات برداشت کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔

وہ بےگھر ہو جائے گا۔ جس بینک میں وہ کام کرتا ہے، اسی بینک نے ایک گھر اسے خرید کر دیا ہے اور اقساط اس کی تنخواہ سے منہا کرتے ہیں، اقساط ادا کرنے کے بعد وہ مکان کا مالک بن جائے گا۔ اس لحاظ سے وہ ابھی تک بینک کا مقروض ہے۔ ملازمت سے فارغ کر دیے جانے کے بعد اسے گھر سے بےدخل کر دیا جائے گا وہ اپنی چھوٹی سی فیملی کے ساتھ بے گھر ہو جائے گا۔

اس بدنصیب کا نام میں آپ کو بتانا نہیں چاہتا۔ بہت زیادہ مشہور تو نہیں ہے لیکن اپنے علاقے میں جانا پہچانا جاتا ہے۔ اچھی شہرت رکھتا ہے۔ اس جیسے سینکڑوں ہنرمندوں کو عنقریب بےروزگار کر دیا جائے گا۔ روزی روٹی سے محروم ہو جانے کے بعد وہ لوگ کیا کریں گے؟ میں نہیں جانتا۔ سرکار بہادر نے براہِ راست ان کے مالکان سے نہیں کہا ہے کہ ہنر مندوں کو ملازمت سے فارغ کر دیا جائے۔سرکار بہادر نے سختی سے اداروں کے مالکان سے کہا ہے کہ وہ اپنے ادارے کو ہنر سے دور رکھیں۔

اداروں کو ہنر دکھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اداروں کے کرتا دھرتا یعنی مالکان شش و پنج میں پڑ گئے ہیں اگر ان کو ہنر دکھانے سے روک دیا گیا ہے تو پھر وہ اچھی خاصی تنخواہوں پر ہنر مند کو ملازم رکھ کر کیا کریں گے! مالکان کو ہنرمندوں سے ہمدردی ہے۔ ہنرمندوں نے برسہا برس اپنے ہنر سے اداروں کا نام روشن کیا ہے۔ کئی ادارے ایسے بھی ہیں جو ہنر مندوں کے اعلیٰ ہنر کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ مالکان ہنرمندوں کو بیروزگار کرنا نہیں چاہتے ان کو ملازمت سے فارغ کرنا نہیں چاہتے۔

ان کو متبادل کام پر لگانا چاہتے ہیں مگر مالکان مجبور ہیں ۔بدقسمتی سے ہنرمند اپنے ہنر کے علاوہ کچھ اور نہیں جانتے۔ وہ لوگ عام طور پر پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ نہیں ہوتے کہ کسی متبادل کام پر لگا دیے جائیں۔ بھاری بھرکم تنخواہیں لینے والوں کو نائب قاصد، چپراسی، چوکیدار نہیں لگایا جاتا۔ یا پھر ان کی تنخواہیں اور مراعات کم کر کے چپراسی کی تنخواہ پر ملازم رکھا جائے؟ ہنر کی ترویج سے منسلک ادارے پریشان ہیں کہ وہ اچھی خاصی تنخواہوں پر ملازمت میں رکھے ہوئے ہنرمندوں کا کیا کریں؟

ہنر مندوں کی ہمت افزائی کرنے اور ان کو اچھی تنخواہوں پر ملازمت میں رکھنے والے اداروں کے لئے سرکار بہادر نے اور کوئی چارہ نہیں چھوڑا ہے سوائے اسکے وہ ہنرمندوں کو ملازمت سے فارغ کر دیں، ہماری سرکار کی ضد کے آگے ہزاروں کرکٹر جن کو کرکٹ کھیلنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں آتا، بھینٹ چڑھا دیے جائیں گے۔

بٹوارے سے پہلے ہندوستان کی بڑی بڑی ریاستیں کرکٹ کے کھلاڑیوں کو باقاعدہ اپنا لیتی تھیں۔ ایک لحاظ سے انہیں پا لتی تھیں۔ مشتاق علی، ونو منکڈ، امرناتھ، بھاٹکر، نائیڈو، دلیپ سنگھ اور ان جیسے اعلیٰ کھلاڑی ریاستوں کے پیشہ ور کھلاڑی تھے۔ اپنی ریاست کے علاوہ وہ ہندوستان کیلئے کھیلتے تھے۔ ایک لمبے عرصے تک بینکوں اور کئی ایک اداروں نے ملازمتیں دیکر کھلاڑیوں کی دیکھ بھال کی ہے۔ انہی اداروں نے آپ کو حنیف محمد اور ان کے دو بھائی مشتاق محمد اور صادق محمد دیے ہیں۔

جاوید میاں داد آپ کو دیا ہے۔ انتخاب عالم آپ کو دیا ہے جس نے اپنے پہلے ٹیسٹ میچ کے پہلے اوور کی پہلی گیند پر آسٹریلیا کے میکڈونالڈ کوکلین بولڈ کر دیا تھا۔ ایک لمبی فہرست ہے ایسے کھلاڑیوں کی جو مختلف اداروں کی طرف سے کھیلتے ہوئے اچھی کارکردگی کی بنیاد پر پاکستان کیلئے بھی کھیلے تھے۔ اس کام میں ہمارے کپتان کو کیا خرابی نظر آئی ہے؟ اداروں پر کرکٹ کے دروازے بند کرکے سرکار آپ نے ہزاروں کھلاڑیوں کو مفلسی اور تنگدستی میں دھکیل دیا ہے۔

سرکار آپ آسٹریلیا کی مثال دیکر پاکستان میں چار صوبوں کی ٹیموں کے درمیان ٹورنامنٹ کی حمایت کرتے ہیں۔ کراچی کی آبادی تقریباً آسٹریلیا کی آبادی کے برابر ہے۔

اس لحاظ سے صرف کراچی شہر کی چھ ٹیمیں تیار ہو سکتی ہیں اور پھر سب سے اہم بات کیا صوبائی چار ٹیمیں سال بھر آپس میں کھیلتی رہیں گی؟ اگر نہیں تو کیا چار صوبوں کی ٹیموں کے درمیان ٹورنامنٹ ہونے کے بعد سال بھر کے لئے اسٹیڈیم خالی پڑے رہیں گے؟ پاکستان میں مختلف اداروں کی اتنی ٹیمیں ہیں کہ اداروں کے درمیان مقابلوں میں کرکٹ کے میدان ہر وقت آباد نظر آتے ہیں۔

پلیز کپتان جی، کھیلنے دیں لوگوں کو، ان کو کھیلنے اور عزت سے زندگی گزارنے کے حق سے محروم مت کریں۔ آج کے کھلاڑی فضل محمود، امتیاز احمد، وقار حسن، جاوید برکی، ماجد خان، کاردار، شجاع، ایم ای زیڈ غزالی، روسی ڈنشا اور آپ کی طرح اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں ہیں۔

وہ تعلیم کے بل بوتے پر ملازمت حاصل نہیں کر سکتے۔ وہ ہنر سے ملازمت حاصل کرتے ہیں اور عزت کی روزی روٹی کھاتے ہیں۔ دست بستہ ایک بوڑھا وکٹ کیپر آپ سے گزارش کرتا ہے کہ سرکار اداروں پر کرکٹ کے دروازے بند کرنے کے احکامات واپس لے لیں۔

تازہ ترین