• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں عام انتخابات کے انعقاد میں اب عملاً ایک ہفتہ رہ گیا ہے مگر بے یقینی کا یہ عالم ہے کہ اب بھی چالیس فیصد سے زائد قوم کو خدشہ ہے کہ شاید انتخابات موخر ہوجائیں، ان کے خیال میں یہ بھی اشارے مل رہے ہیں کہ اے این پی اور ایم کیو ایم سمیت کئی جماعتیں اپنے آپ کو احتجاجاً انتخابی عمل سے الگ کرلیں جس سے چھوٹے صوبوں میں انتخابات کا انعقاد کرانا مشکل ہوسکتا ہے۔ اس کے برعکس پنجاب میں سیاسی درجہ حرارت میں تیزی آرہی ہے۔ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی اپنی اپنی برتری کے لئے بڑے جذباتی انداز میں انتخابی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دونوں جماعتوں کے قائدین بزنس کمیونٹی سے بھی رابطے کرکے معیشت کی بحالی کے دعوے کررہے ہیں۔ یہ وعدے موجودہ معاشی حالات میں کیسے پورے ہوں گے اس کے بارے میں اگر سنجیدگی سے ان قائدین سے پوچھا جاتا ہے تو وہ برا مناتے ہیں کہ ہمیں اقتدار میں تو آنے دو، پھر دیکھیں ہم کیا کیا کرتے ہیں۔ اس وقت عام تاثر یہی ہے کہ گیارہ مئی کو عام انتخابات کے روز بڑے ہنگامے ہوں گے۔ شاید اس سے بچنے کے لئے الیکشن کمیشن نے اس روز عام تعطیل کا اعلان کردیا ہے۔ اس سے یہ بھی خدشہ ہے کہ ٹرن آؤٹ میں اضافہ کی بجائے کمی ہوجائے کیونکہ دفاتر میں آتے جاتے وقت ووٹ ڈالنا آسان ہوتا ہے۔ بہ نسبت گھر سے موڈ بنا کر وو ٹ ڈالنا ۔
ویسے بھی وفاقی حکومت اور پنجاب کے سرکاری دفاتر میں تو ہفتے کی معمول کی چھٹی ہوتی ہے ۔ اس لئے الیکشن کمیشن یہ تکلیف نہ کرتا تو بہتر تھا۔ بھارت میں انتخابات کے روز باقاعدہ تعطیل کا اعلان نہیں کیا جاتا بلکہ وہاں روزمرہ امور ہی کے دوران ووٹنگ کا عمل جاری رہتا ہے۔ پاکستان میں انتخابات کے انعقاد اور اس میں کسی ایک پارٹی کی جیت کے حوالے سے سیاسی بزنس مارکیٹ میں بھی”سٹے“ کا عمل تیز ہوگیا ہے۔ اس حوالے سے کروڑوں روپے کی شرطیں لگائی جارہی ہیں۔ حتیٰ کہ ماہرین علم نجوم کا بزنس بھی چمک اٹھا ہے۔ برطانوی ایسٹرو لاجرز کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ11مئی2013ء کو انتخابات ہو ہی نہیں سکتے۔ تاریخی نقطہ نظر سے11مئی کو کوئی اچھا دن نہیں سمجھا جاتا۔ اس روز 1953ء میں امریکی ریاست ٹیکساس میں بدترین زلزلہ میں کافی زیادہ انسانی و مالی نقصان ہوا تھا۔ اسی ریاست میں11مئی1970ء کو پھر زلزلہ نے تباہی مچادی تھی۔ 1950ء میں اس روز بریڈ فورڈ سٹیڈیم میں آتشزدگی کے افسوسناک واقعہ میں پچاس سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔11مئی 1996ء کو فلوریڈا کے مقام میامی میں ایک فضائی حادثہ میں110افراد جاں بحق ہوئے تھے جبکہ اس روز ماؤنٹ ایورسٹ پہاڑ سر کرنے کی کوشش میں8کوہ پیماہ ہلاک ہوئے۔اس روز 11 مئی1998ء کو بھارت نے پوکھران کے مقام 3ایٹمی دھماکے کئے تھے جس کے بعد پاکستان کو بھی ایٹمی دھماکے کرنا پڑے تھے۔ اب بھارت ان دھماکوں کی15ویں سالگرہ منارہا ہوگا اور ہمارے ہاں10ویں عام انتخابات ہورہے ہوں گے۔ اس حوالے سے یہ امر بھی باعث دلچسپی ہے کہ پاکستان میں حالیہ8انتخابات یا تو سوموار کے روز یا بدھ کے دن ہوتے رہے ہیں، صرف صدر پرویز مشرف کے دور میں ہونے والے انتخابات جمعرات کے روز ہوئے تھے۔ آج وہی پرویز مشرف اپنے ہی انتخابات اور دور حکمرانی کے فیصلوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان میں عموماً ہفتے کا دن قومی اسمبلی میں سالانہ بجٹ پیش کرنے کا دن ہوتا ہے لیکن اس بار بجٹ تو نہیں عام انتخابات کے لئے ہفتے کے دن کا چناؤ کیا گیا ہے۔ پاکستان میں ماضی میں سوموار کے روز ہونے والے انتخابات 7دسمبر1970ء،7مارچ 1977ء، 25 فروری1985ء ہیں جبکہ 16نومبر1988ء ، 24 اکتوبر1990ء، 16اکتوبر1993ء کوانتخابات کا دن بدلا تھا۔ اس کے بعد3فروری1997ء،18فروری کے انتخابات بھی فروری بروز بدھ منعقد ہوئے تھے۔ اس سلسلہ میں خالد فرشوری کی ریسرچ سے انتخابات کی تاریخوں کی تفصیل حاصل کی گئی ہے۔
اس وقت سب پاکستانی اس امید کے ساتھ انتخابی عمل کے آخری مرحلہ میں داخل ہورہے ہیں کہ شاید ملک میں روشنی کی کرن نکلنے والی ہے لیکن عوام اس حوالے سے کسی بھی سیاسی پارٹی کے منشور اور خاص کر اقتصادی اورمعاشی ایجنڈے سے مطمئن نظر نہیں آرہے۔ ان کے خیال میں ایک خدشہ یہ بھی جنم لے رہا ہے کہ اقتدار کے حصول اور اپنی اپنی کرسی پر برا جمان رہنے کی جنگ تو انتخابات کے انعقاد کے بعد ہوگی کیونکہ ستمبر سے لے کر دسمبر کے درمیان پاکستان کی تین اہم شخصیات صدر زرداری، آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سرکاری دستاویزات کے مطابق ریٹائر ہونے والی ہیں۔
دوسری طرف اگرانتقال اقتدار کے مرحلہ میں کمزور ترین مخلوط حکومت بن جاتی ہے تو پھر کیا کچھ ہوگا۔ کون کون گھر جائیگا اور کس کس کے لئے خواہش ظاہر کی جائے گی کہ ابھی ان کی ملک کو ضرور ت ہے۔ ویسے تو یہ روایت اب نہ پڑے تو قومی نظام چلانے کے حوالے سے اچھا ہوگا لیکن اگر پارلیمانی نظام ہی کمزور ستون پر کھڑا ہوتو پھر یہ بھی ممکن ہے کہ نئی حکومت بنے تو پانچ سال کے لئے حالات مڈ ٹرم الیکشن کی طرف چلے جائیں اور اس سے پہلے کوئی اور قول حکومت سب کی مرضی سے نظام حکومت کے امور چلانے کے لئے سامنے آجائے ،یہ سب حالات معاشی نقطہ نظر سے اچھا شگون نہیں ہوں گے اس سے معیشت پر دباؤ میں اضافہ ہوگا اور ملکی و غیر ملکی سرمایہ کار پھر سوچ بچار میں پڑجائیں گے جس سے پاکستان کو معاشی اور نظریاتی طور پر کمزور کرنے والے عناصر اور ممالک کو اپنے مقاصد حاصل کرنے میں آسانی ہوگی۔ ایسے حالات میں قومی سلامتی کی حفاظت کے لئے افراد نہیں اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے جس کے لئے حالات اور دعائیں خود بخود ان کی طرف چلی جاتی ہیں۔
تازہ ترین