• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشاہدہ بتاتا ہے کہ شہد کی مکھی صبح جب اپنے پہلے سفر پر نکلتی ہے تو اندھیرے میں روانہ ہوتی ہے مگر شام کو جب پھولوں کے مقام سے وہ اپنی آخری باری کے لئے چلتی ہے تو اس کا یہ سفر نسبتاً اُجالے میں ہوتا ہے۔ صبح کے وقت سفر کا مطلب ہے کہ وہ اندھیرے سے اُجالے کی طرف بڑھ رہی ہے جبکہ شام کے سفر کا مطلب اجالے سے اندھیرے کی طرف جانا ہے۔ شہد کی مکھی وقت کے اس فرق کو ملحوظ رکھتی ہےکہ اندھیرے میں اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ وہ بھٹک جائے اور اپنی منزل پر نہ پہنچے۔ یہی حال قوموں، ملکوں، اداروں اور معاشروں کا ہے۔ زندگی میں ہمارا ہر قدم حقائق کی بنیاد پر اُٹھنا چاہئے نہ کہ خوش فہمیوں اور موہوم امیدوں کی بنیاد پر۔ آنے والے لمحات کبھی ’’اندھیرے‘‘ کے لمحات ہوتے ہیں اور کبھی اُجالے کے ۔ اگر اس فرق کی رعایت کئے بغیر بے خبری میں سفر شروع کر دیا جائے تو آنے والا لمحہ ہماری رعایت نہیں کرے گا وہ اپنے نظام کے تحت آجائے گا نہ کہ ہماری خوش فہمیوں کے تحت نتیجہ یہ ہوگا کہ کبھی ہم یہ سمجھیں گے کہ ہم روشن مستقبل اور شاندار انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں حالانکہ اگلا لمحہ جب آئے گا تو معلوم ہوگا کہ ہم صرف اندھیروں کی طرف بڑھ رہے تھے۔ آج ملک عزیز میں جس گھٹا ٹوپ اندھیرے کا ذکر بار بار ہورہا ہے وہاں ہر آدمی کسی نہ کسی مصنوعی فخر، ناز یا برتے پر جی رہا ہے کسی کو یہ ناز ہے کہ اس کے پاس اقتدار ہے کوئی اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ کسی کو یہ ناز ہے کہ اس کے پاس مذہب جیسی مقدس اور غالب رہنے والی چیز ہے۔ کسی کو یہ ناز ہے کہ اس کے پاس مال و دولت کے انبار ہیں اس کا کوئی کام اٹکا نہیں رہ سکتا کسی کو یہ ناز ہے کہ اس کا اپنا حلقہ و برادری ہے جو ہر موقع پر اس کی مدد کے لئے کافی ہے۔ کوئی کسی جماعت سے وابستہ ہے اور کوئی کسی ادارہ سے۔ کوئی عوامی قافلہ میں شریک ہے تو کوئی سرکاری قافلہ میں، غرض ہر ایک کسی نہ کسی سہارے پر جی رہا ہے۔ یہی ناز اُسے صحیح بات سمجھنے سے روکتا ہے جب کوئی کھلے دلائل کے ساتھ اُس سے بحث و مباحث کرتا ہے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ ان دلائل کا کوئی حقیقی جواب اس کے پاس نہیں ہے مگر اس کے باوجود وہ اس کا غرور اس کو جھوٹے بھروسہ کی نفسیات میں مبتلا رکھتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ اگر میں اس کے دلائل کو نہ مانوں گا تو میرا کچھ بگڑنے والا نہیں مگر جب سر پر پڑے گی تو معلوم ہوگا کہ یہ سارے ’’سہارے‘‘ بالکل بے حقیقت تھے۔ جھوٹے سہاروں پر جینے والے آخر میں بالکل بے سہارا ہوکر رہ جائیں گے۔ حقائق سے آنکھیں چُرانے والوں پر بربادی ٹوٹ پڑے گی اور کوئی بھی چیز نہ ہوگی جو ان کو اس سے بچانے والی ثابت ہو۔ آدمی کا وہی عمل حقیقتاً عمل ہے جو خود اس کو کچھ دے رہا ہو اگر آدمی بظاہر سرگرمیاں دکھا رہا ہو اور اس کا اپنا وجود کچھ پانے سے محروم رہے تو اس کی سرگرمیوں کی کوئی حقیقت نہیں، عمل وہی عمل ہے جس کے دوران آدمی کے ذہن میں شعور کی چنگاری بھڑکے۔ اس کے دل میں سوز و تڑپ کا کوئی لاوا ابلے، اس کی روح کے اندر کوئی کیفیاتی ہل چل پیدا ہو اس کے اندرون میں کوئی ایسا حادثہ گزرے جو برتر حقیقتوں کی کوئی کھڑکی اس کے لئے کھول دے وہ کسی ایسے طوفان سے آشنا ہو کہ اس کے بحر کی موجوں میں اضطراب پیداہو۔وہی عمل عمل ہے جو آدمی کو اس قسم کے تحفے دے رہا ہو۔ جس عمل سے آدمی کو یہ چیزیں نہ ملیں وہ ایسے ہی ہے جیسے سوراخ دار بالٹی میں پانی گرانا۔ ایک اندھا چلتے چلتے کنویں کے کنارے پہنچ جائے تو ہر آدمی جانتا ہے کہ اس وقت سب سے بڑا کام یہ ہے کہ اس کو کنویں کے خطرے سے آگاہ کیا جائے چنانچہ وہ بے اختیار پکار اُٹھتا ہے ’’کنواں کنواں‘‘مگر کیسی عجیب بات ہے کہ سارا ملک، ساری قوم اس سے زیادہ خطرناک ’’کنویں‘‘ کے کنارے کھڑی ہے مگر ہر آدمی دوسرے کاموں میں لگا ہوا ہے۔ کوئی شخص ’’کنواں کنواں‘‘ پکارنے کی ضرورت محسوس نہیں کررہا۔ حتیٰ کہ اگر کوئی دیوانہ اس قسم کی پکار بلند کرے تو لوگوں کی طرف سے جواب ملتا ہے۔ یہ شخص قوم کو بزدلی کی نیند سلانا چاہتا ہے۔لوگ کنویں کے کنارے کھڑے ہوئے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ محفوظ مکان میں ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین