• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: سردار عبدالرحمٰن خان۔بریڈ فورڈ
افواہیں گرم ہیں کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنایا جارہا ہے۔ ان خبروں میں کوئی سچائی ہے یا نہیں لیکن کشمیری حلقوں میں بے چینی نظر آرہی ہے، آزاد کشمیر کے اندر اور باہر کشمیری ’’ڈائسپورہ‘‘ میں بھی اس تجویز کے خلاف بیان بازی ہورہی ہے یہ بیان بازی اور مخالفت یا اعتراضات پاکستان کی مخالفت میں نہیں بلکہ ریاست جموں و کشمیر کی وحدت کے حق میں آرہے ہیں۔ ریاست جموں و کشمیر ایک ایسی وحدت ہے جس میں مختلف اکائیوں کا علاقہ شامل ہے۔ ریاست جموں و کشمیر میں جموں، کشمیر، لداخ، گلگت اور دوسرے چھوٹے چھوٹے حلقے شامل ہیں۔ کشمیر کا فیصلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہونا باقی ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ریاست جموں و کشمیر کی حیثیت کو یک طرفہ کارروائیوں سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کا ہمیشہ یہی موقف رہا ہے کشمیر کے ٹکڑے نہیں کئے جاسکتے۔ استصواب رائے افضل ترین حل ہے کوئی بھی یک طرفہ کارروائی اقوام متحدہ کی قراردادوں کی نفی ہے۔گلگت کے لفظی معنی ہیں ’’پہاڑوں کے درمیان گھرا ہوا‘‘ گلگت بلتستان دو پہاڑوں کوہ قراقرم اور کوہ ہمالیہ کے درمیان واقع ہے۔ گلگت بلتستان صدیوں سے ریاست جموں و کشمیر کا حصہ رہا ہے بیرونی حملہ آوروں نے بھی کشمیر کی وحدت کو قائم رکھا اور گلگت بلتستان کو کشمیر سے الگ نہیں کیا۔ مغلوں، سکھوں اور افغانیوں نے بھی ریاست جموں و کشمیر پر حکمرانی کی لیکن کشمیر کو تقسیم نہیں کیا۔ گلگت بلتستان کی کہانی بہت طویل ہے اس لئے اخقصار کے لئے برطانوی حکومت کے بعد کے واقعات زیادہ متعلقہ نظر آتے ہیں۔ جب حکومت برطانیہ کو اس خطے میں روس اور چین کا اثرورسوخ بڑھتا ہوا نظر آیا تو اس نے 1935ء میں وائسرائے ہند اور مہاراجہ آف جموں و کشمیر کے درمیان ایک معاہدہ کردیا جس کی رو سے گلگت اور بلتستان کا کنٹرول حکومت برطانیہ کے حوالے کردیا گیا۔ حکومت برطانیہ نے گلگت، بلتستان میں اپنا ریذیڈنٹ ایجنٹ تعینات کردیا۔ یہ معاہدہ وائسرائے ہند لارڈ ویلنگٹن نے منظور کیا اور کرنل ایل لینگ کو ریذیڈنٹ ایجنٹ مکرر کردیا۔ اس معاہدے کے تحت برطانیہ نے گلگت بلتستان کے 14680 میل رقبہ ساٹھ سا کے لئے اپنے کنٹرول میں لے لیا لیکن قانونی طور پر پھر بھی گلگت بلتستان ریاست جموں و کشمر کی زیرحکمرانی رہا ہے۔ حق حکمرانی کے اظہار کے لئے ہرہائی نس مہاراجہ آف جموں و کشمیر سے اس علاقے میں عزت و احترام سے سلوک کیا جائے گا، مہاراجہ کو سلامی دی جائے گی۔ پرانی روایات کو قائم رکھا جائے گا، گلگت بلتستان کی تمام سرکاری عمارتوں اور گلگت ایجنسی کے ہیڈ کوارٹرز پر ریاست جموں و کشمیر کا جھنڈا لہراتا رہے گا۔ تمام حقوق ریاست کو حاصل ہوں گے اور معاہدہ ساٹھ سال تک رہے گا۔ اس معاہدے کے 12 سال بعد دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ ہوگیا۔ حکومت برطانیہ نے ہندوستان میں اپنا راج ختم کردینے کا فیصلہ کرکے تقسیم ہند کی منظوری دے دی۔ تمام ریاستوں کے ساتھ برطانوی معاہدے ختم ہوگئے اور حق حکمرانی دوبارہ تمام ریاستوں کو مل گئی نتیجہ کے طور پر گلگت بلتستان 30 جولائی 1947ء کو ریاست جموں و کشمیر کا صوبہ بن گیا۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے بریگیڈیر گھتسارہ سنگھ کو اس کا گورنر بنادیا۔ اور بارہ سال بعد مہاراجہ ہری سنگھ کو اس علاقہ کا پورا کنٹرول مل گیا۔جب 24 اکتوبر 1947 ء کو آزاد حکومت معرض وجود میں آگئی تو اس وقت اس حکومت کے سیاسی اور انتظامی اور قانونی سٹکچر کی بنیاد رکھنے کی ضرورت پڑی۔ آزاد کشمیر کی پہلی حکومت صدارتی نظام کی حامل تھی، صدر آزاد کشمیر حکومت کا سربراہ بھی تھا اور چیف ایگزیکٹیو بھی تھا۔ مختصر سات ممبران کی ایک کیبنٹ تھی۔ جب گلگت بلتستان کا علاقہ بھی فتح ہوگیا تو نوزائیدہ حکومت کے پاس نہ ذرائع تھے، نہ وسائل اور رسل و رسائل، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر کے صدر مقام سے تقؑریباً ساڑھے پانچ سو کلو میٹر دور ہے۔ اس لیے آزاد کشمیر کا لوکل ڈھانچہ کھڑا کرتے وقت ذمہ داریوں اور تقسیم کار کے لیے ایک فریم ورک تیار کیا گیا۔ یہ فریم ورک ’’معاہدہ کراچی‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ معاہدہ یا فریم ورک تین فریقین کے درمیان طے پایا گیا۔ 1۔ حکومت پاکستان، 2۔ حکومت آزاد کشمیر اور3۔ مسلم کانفرنس، ان تینوں فریقین کے درمیان حکومت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے معاملات کو سرانجام دینے کے لیے ذمہ داریاں تقسیم کرکے سونپ دی گئیں۔ یہ عبوری فریم ورک تھا۔ آج اس فریم ورک اور معاہدے کے تقریباً80فیصد اجزا تبدیل ہوچکے ہیں، اس معاہدے میں کہیں بھی گلگت بلتستان کی حیثیت تبدیل کرنے کا ذکر نہیں۔ نہ ہی اس میں کشمیر کی وحدت سے الگ کرنے کا ذکر ہے۔ نہ اس کی حیثیت تبدیل کرنے کا ذکر ہے۔اگر آج گلگت بلتستان کی اپنی حیثیت تبدیل کی جاتی ہے تو اس سے ہندوستان کی5اگست کی مذموم کارروائی کو مدد مل سکتی ہے۔ بھارت نے خصوصی حیثیت کتم کرکے اقوام متحدہ کی قرارِدادوں کی نفی کی۔ پاکستان نے ہمیشہ قراردادوں کی پاسداری کی ہے۔ استصواب رائے سے پہلے کشمیر کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنا ہمارے موقف کو کمزور کرے گا۔ کوئی بھی فیصلہ کشمیریوں کی رائے کے بغیر نہیں ہونا چاہیے۔ کشمیری ان حالیہ افواہوں سے فکرمند ہیں۔
تازہ ترین