• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

بریڈلا ہال میں کبھی امرتسر کی مشہور مغنیہ گوہر جان کا پہلی مرتبہ شو بھی ہوا تھا۔ آج یہاں کبوتروں اور دیگر پرندوں کے گھونسلے بن چکے ہیں۔ ہم اِس ہال کے ایک ٹوٹے ہوئے دروازے سے جب اندر داخل ہوئے تو کئی طرح کے پرندے ہمارے سر سے آ ٹکرائے۔ بڑی دیر تک ہم سوچتے رہے کہ کیا ہال تھا۔ کیا یہاں پر رنگ رنگ کی محفلیں ہوا کرتی تھیں۔ یہ لاہور کا واحد ہال تھا۔ یہاں ایک طرف سیاسی جلسے ہوتے تھے تو دوسری طرف گانے کی محفلیں۔ کاش کوئی اس تاریخی ہال کی پوری تاریخ لکھ سکے مگر یہاں تو قبضہ مافیا ہال کے گرنے کے انتظار میں ہے۔ آج سے پچاس سال بعد لاہور کی کئی تاریخی عمارتیں ختم ہو چکی ہوں گی بلکہ باقاعدہ پلاننگ سے ان خوبصورت تاریخی عمارتوں کو تباہ کر دیا جائے گا۔

بریڈلا ہال میں کئی تھیٹریکل کمپنیوں کے ڈرامے بھی ہوا کرتے تھے۔ لاہور میں الحمرا ہال، لارنس گارڈن کا اوپن ایئر تھیٹر، ایجوکیشنل آڈیٹوریم (عجائب گھر) برٹ انسٹی ٹیوٹ کے علاوہ لاہور کے مختلف کالجوں میں بھی بڑے خوبصورت اور معیاری ڈرامے ہوا کرتے تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی اور اردو ڈرامے ہر سال پیش کئے جاتے تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور بڑی شاندار روایات کا امین تھا۔ اب یہ کالج بھی ماضی کے مقابلے میں معیار سےکئی گنا نیچے آ چکا ہے۔ یہ دنیا کا واحد کالج (اب یونیورسٹی) ہے جس کی اولڈ راوین یونین کا ممبر ہر وہ شخص بن سکتا ہے جس نے گورنمنٹ کالج لاہور (اب یونیورسٹی) میں صرف پانچ سال پڑھایا ہو۔ چاہے وہ ایک دن بھی گورنمنٹ کالج کا طالب علم نہ رہا ہو۔ اس پر اولڈ راوین کو بہت اعتراض ہے۔ یہ اصول ختم ہونا چاہئے۔ کبھی گورنمنٹ کالج میں راوین صرف اس کے اولڈ اسٹوڈنٹس ہی کہلایا کرتے تھے۔ آج وہ لوگ بھی اولڈ راوین بن چکے ہیں جو یہاں سے نہیں پڑھے بلکہ صرف پانچ سال پڑھا کر اولڈ راوین بن جاتے ہیں۔ ایسا رواج دنیا کے کسی تعلیمی ادارے میں نہیں ہے۔

لاہور کے تعلیمی اداروں میں کنیئرڈ کالج، ایف سی کالج، دیال سنگھ کالج، کوئین میری کالج اور لاہور کے ڈرامیٹک کلب کبھی بڑے سرگرم رہے ہیں۔ آپ کو پڑھ کر حیرت ہو گی کہ کسی زمانے میں ریلوے اسٹاف اور گورنمنٹ پرنٹنگ پریس تک کے ملازمین نے تھیٹر کلب قائم کر رکھے تھے۔ ان کے اپنے اپنے اسٹیج تھے۔ کبھی جن کالجوں کے اسٹوڈنٹس کے تیار کردہ ڈرامے بہت مشہور تھے۔ ان میں کنیئرڈ کالج، دیال سنگھ کالج اور جی سی شامل تھے۔ کنیئرڈ کالج کا ڈرامہ آج بھی اپنا ماضی کا معیار برقرار رکھے ہوئے ہے جبکہ گورنمنٹ کالج (اب یونیورسٹی) اور دیال سنگھ کالج کے ڈرامے اپنا معیار کھو چکے ہیں، بلکہ دیال سنگھ کالج میں مدت ہوئی اب کوئی ڈرامہ نہیں ہوا۔ لاہور الحمرا ہال میں بڑے بڑے خوبصورت ڈرامے ہوا کرتے تھے۔ اس دور میں جن لوگوں نے اسٹیج کو زندہ رکھا، ان میں نعیم طاہر، انور سجاد، صفدر میر، سکندر شاہین، خالد سعید بٹ، صوفی وقار، فضل کمال، سکندر اقبال، انور عظیم اور شاہد عزیز یہ لوگ گورنمنٹ کالج کے اسٹیج ڈراموں میں بھی حصہ لیا کرتے تھے۔ خوش قسمتی سے نعیم طاہر حیات ہیں وہ ایک تاریخ ہیں۔ اس وقت لاہور میں ڈرامہ اور تھیٹر کی تاریخ ان سےبہتر اورمکمل کوئی اور نہیں جانتا۔

لاہور کے تھیٹر میں رفیع پیر، سید امتیاز علی تاج، آغا حشر کاشمیری، انور سجاد، حکیم احمد شجاع، مرزا ادیب، سعادت حسن منٹو کے نام ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ وائی ایم سی اے میں کئی ڈرامے پیش کئے گئے۔ ان دنوں گورنمنٹ سینٹرل ماڈل اسکول لوئر مال کا اسٹیج بھی ڈراموں کیلئے بڑا مشہور تھا بلکہ اس کے اسٹیج کا شمار لاہور کے خوبصورت ترین اسٹیج میں ہوتا تھا۔ سینٹرل ماڈل اسکول کے اسٹیج پر آغا حشر کا ڈرامہ ’’اچھوتا دامن‘‘ ایک نئے انداز میں پیش کیا گیا تھا، جس نے بڑی مقبولیت حاصل کی۔ کیا اسکول تھا جس کو تباہ و برباد کر دیا گیا۔ کبھی ریلوے برٹ انسٹی ٹیوٹ جو گڑھی شاہو میں قائم ہے، میں بھی بڑے خوبصورت ڈرامے ہوتے تھے اور ہفتہ کی رات کو HOSEYہوا کرتی تھی جس میں آپ کو کچھ کارڈ نما کاغذ دیئے جاتے تھے اور ا سٹیج پر ایک شخص نمبر بولتا تھا۔ اگر وہ نمبر آپ کے اس کارڈ پر ہوتے اور آپ ان نمبروں کو پہلے کاٹ لیتے تو آپ ہاتھ کھڑا کرتے تو آپ کو انعام ملتا تھا۔ ہم نے اپنے والد کے ساتھ یہ HOSEYکئی مرتبہ کھیلی تھی اور انعامی رقم بھی حاصل کی تھی۔ برٹ انسٹی ٹیوٹ ریلوے کا یہہال آج اپنی تباہی کی داستان بنا ہوا ہے۔ کئی ریلوے کے وزیر آئے، کئی نے بہت دعوے کئے مگر وہ اس برٹ انسٹی ٹیوٹ کی رونقیں بحال نہ کر سکے۔ بلکہ ریلوے کی کسی بھی خوبصورت قدیم عمارت کی تزئین و آرائش اور اس کا تعمیراتی حسن بحال نہ کرسکے۔

گڑھی شاہو، نکلسن روڈ، ہال روڈ اور وکٹوریہ پارک میں آپ کو اکثر اینگلو انڈین خواتین اور مرد نظر آتے تھے۔ اینگلو انڈین خواتین فراک پہنے پھر رہی ہوتی تھیں۔ لاہور کے تین میڈیکل کالجز کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) علامہ اقبال میڈیکل کالج، فاطمہ جناح میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) کے طلباء و طالبات بھی ایک عرصےسے معیاری ڈرامے پیش کر رہے ہیں۔ اگرچہ یہ میڈیکل کے اسٹوڈنٹس ہیں پھر بھی ان ڈراموں میں ایک پیغام ہوتا ہے۔ دوسری طرف یو ای ٹی اور پنجاب یونیورسٹی کے طلباء بھی سال میں ایک مرتبہ ڈرامے پیش کرتے ہیں۔ ہم نے پچھلے کالم میں موہنی روڈ کا ذکر کیا تھا۔ موہنی روڈ کسی زمانے میں بڑی صاف ستھری سڑک تھی، یہاں پر ایک کھلا میدان ٹی بی اسپتال کے پاس بھی ہوتا تھا، کبھی یہاں پر میلہ رام کا تھیٹر بھی تھا۔ اس علاقے کے نزدیک میلہ رام کی مل بھی تھی۔ جس کے اجڑے ہوئے آثار ہم نے دیکھے ہیں۔ موجودہ حکومت راوی کے ساتھ 46کلو میٹر نیا لاہور بنانے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ ارے اللہ کے بندو پہلے پرانے لاہور کی رونقیں تو بحال کرلو، پہلے اس تاریخی شہر کو تو بچا لو پھر نئے لاہور کی بات کرنا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین